حال ہی میں بھارتی فوجی قیادت نے پاکستان سے متعلق کچھ شر انگیز تبصرے کیے ہیں جو نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے لئے تشویش کا باعث ہیں۔ بھارتی فوج کے جنرل اوپندر دویدی نے وہی پرانا رسوائے زمانہ الزام لگاتے ہوئے پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز قرار دیا ہے جبکہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے آزاد جموں و کشمیر کے حوالے سے دھمکیاں دی ہیں۔ اس طرح کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت کی فوج نا صرف سیاست زدہ ہے بلکہ وہ خطے کے امن کو داؤ پہ لگانے پہ تلی ہوئی ہے۔
شمالی امریکہ میں سکھ رہنماؤں کے خلاف قتل کی سازش ہو یا پاکستانی سرزمین پر کشمیر کی تحریک آزادی سے وابستہ کارکنان کی پراسرار انداز میں اموات، ہر جگہ تحقیقاتی اداروں کی انگلیاں بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں بھارتی فوجی قیادت اور وزیر دفاع کا حالیہ بیان “الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے” کی عملی مثال نظر آتا ہے۔
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی قیادت ایسے بیانات مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظالمانہ اقدامات کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے دے رہی ہو۔ بھارتی وزیر دفاع کا یہ دعویٰ کہ بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر پاکستان کے پاس کشمیر کے بغیر نامکمل ہے، اگرچہ حقائق سے مطابقت رکھتے ہوئے درست ہے تاہم اس تنازع کا حل اقوام متحدہ کی ان قراردادوں پر عملدرآمد میں پوشیدہ ہے جن کے مطابق یہ کشمیری عوام کا فیصلہ ہوگا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ بھارتی قیادت کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان میں شامل آزاد جموں و کشمیر سے متعلق شرانگیز بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ بھارتی قیادت زمینی حقائق سے بہت دُور توسیع پسندانہ ذہنیت کا حامل ہے۔
پاکستان کے اندر دہشت گردکاروائیوں میں ملوث بھارتی بحریہ کے فوجی افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے امن دشمن عناصر کہاں سے امداد لے رہے ہیں اور کس کےٹکڑوں پہ پل رہے ہیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے درست کہا ہے کہ بھارت کو دوسروں پر الزامات لگانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیئے کیونکہ ان کی جانب سے دہشتگرد کاروائیوں کی پشت پناہی اب صرف پاکستان تک محدود نہیں رہی بلکہ کینیڈا ، امریکہ اور دیگر یورپی ممالک نے بھی بھارت پر واضح کیا ہے کہ اس کی جانب سے ان کی سرزمین پہ ایسی دہشتگرد کاروائیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
بھارتی حکومت کے یہ حالیہ بیانات جنوبی ایشیا میں قیام امن کے لیے انتہائی خطرے کا باعث ہیں اورایک ایسے خطے میں جسے نیوکلیئر فلیش پوائنٹ کا نام دیا جاتا ہے وہاں ایسی شرانگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
ماریہ بتول
