
ہماری کیا خطا ہے؟ بھارت سے پاکستانیوں کی بڑے پیمانے پر بے دخلی،متعدد خاندان بکھر گئے
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) عالمی خبر رساں ادارے الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اپریل میں پہلگام حملے کے بعد بھارت نے 800 پاکستانیوں کو ملک بدر کر دیا۔ بچے ماؤں سے الگ ہوئے، شوہر بیویوں سے بچھڑ گئے۔ سات ماہ گزر جانے کے بعد بھی دوبارہ ملنے کی امید بے حد معدوم ہے۔
سری نگر — بھارتی زیرانتظام کشمیر
سری نگر کی ایک تنگ گلی کی خاموشی کو اچانک سبزی فروشوں کی آوازیں اور دو چھوٹے بچوں کی بے چین چیخیں چیر دیتی ہیں۔
“آنٹی… مجھے امی کے پاس لے چلیں،پولیس انہیں لے گئی !” تین سالہ حسین کھڑکی سے لپٹ کر چلّاتا ہے۔ اس کی ایک سال چھوٹی بہن نوری بھی اس کے ساتھ ہے۔ دونوں کے چہرے زنگ آلود لوہے کی سلاخوں سے باہر جھانک رہے ہیں۔
ان کے والد ماجد* بتاتے ہیں کہ ان کی بیوی سمینہ* — جو پاکستانی شہری تھیں — کو بھارتی حکام نے سات ماہ قبل زبردستی لے جا کر ملک بدر کردیا۔ بچے تب سے تقریباً ہر گزرتے انسان سے یہی فریاد کرتے ہیں۔
ان کی آزمائش کا آغاز اس وقت ہوا جب 22 اپریل 2025 کو بھارتی زیرانتظام کشمیر کے پہلگام میں چھ مسلح افراد — جن میں سے بعض کو پاکستان سے تعلق رکھنے کا الزام تھا — نے سیاحتی مقام پر فائرنگ کر کے 26 افراد کو قتل کر دیا۔
کشمیر جو مسلم اکثریتی خطہ ہے، تقسیم کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعے کا مرکز رہا ہے۔ دونوں ایٹمی طاقتیں پورے کشمیر پر دعویٰ کرتی ہیں جبکہ چین بھی اس کا ایک حصہ کنٹرول کرتا ہے۔
انیس سو اسی (1980) کی دہائی کے اواخر میں کشمیر میں بھارت کے خلاف مسلح جدوجہد شروع ہوئی جس میں ہزاروں شہری جان سے گئے۔ اس کے بعد بھارت نے خطے میں لاکھوں فوجی تعینات کر دیے جس نے اسے دنیا کے سب سے زیادہ عسکری علاقوں میں بدل دیا۔
دو ہزار انیس (2019) میں جب بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت نے کشمیر کی خصوصی نیم خودمختار حیثیت ختم کی تو حالات مزید بگڑے اور حملوں میں اضافہ ہوا۔ بھارت ہمیشہ پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ باغیوں کو تربیت اور مالی مدد دیتا ہے جبکہ پاکستان اس کی تردید کرتا ہے۔
پہلگام حملے کے بعد بھارت نے پاکستان پر الزام لگایا اور تیزی سے سفارتی تعلقات محدود کر دیے، تجارت معطل کی اور ایک اہم آبی معاہدہ بھی روک دیا۔ دو ہفتے بعد دونوں ملکوں نے فضائی جنگ بھی لڑی جس میں دونوں جانب ہلاکتیں ہوئیں۔
لیکن سات ماہ بعد بھی سینکڑوں خاندانوں کے لیے زندگی جیسے رک سی گئی ہے۔
’میں تو زندگی ختم کرنے کے بارے میں سوچتا ہوں‘
ماجد نے 2018 میں اپنی پاکستانی کزن سمینہ سے شادی کی تھی۔ 28 اپریل کو پولیس نے سمینہ کو سری نگر کے دال گیٹ تھانے بلایا اور وہاں سے انہیں حراست میں لے لیا۔ اگلے روز انہیں پاکستان روانہ کر دیا گیا۔
ماجد کہتے ہیں“جب سے وہ گئی ہے، میں بچوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔ نہ سو سکتا ہوں نہ کام کر سکتا ہوں۔ کبھی کبھی میں زندگی ختم کرنے کے بارے میں سوچتا ہوں، لیکن پھر رک جاتا ہوں کہ میرے بعد ان بچوں کا کیا ہوگا؟
بچے روزانہ اپنی ماں کو یاد کر کے روتے ہیں۔ جب بھی کوئی پولیس اہلکار نظر آئے، وہ اس سے کہتے ہیں،ہماری امی کو واپس لے آؤ۔َ
پاکستان میں سمینہ شدید تناؤ کا شکار ہیں اور بار بار اسپتال لے جانا پڑتا ہے۔ ماجد کہتے ہیں: “ان کا بلڈ پریشر قابو میں نہیں آ رہا۔”
حکومتِ بھارت کی ترجمان شازیہ علمی نے الٹا الزام لگایا کہ بہت سے پاکستانی خواتین نے ان لوگوں سے شادی کی ہوئی تھی جو ’’دہشت گردی‘‘ میں ملوث تھے لیکن وہ کوئی ثبوت پیش نہ کر سکیں۔
’پانچ سال بعد ملی… اور 12 دن بعد واپس بھیج دی گئی‘
دہلی کے شہباز کی کہانی بھی ایسی ہی ہے۔ ان کی بیوی ارم پانچ سال سے پاکستان میں پھنسی ہوئی تھیں۔ آخرکار 17 اپریل 2025 کو وہ بھارت پہنچیں مگر 12 دن بعد 29 اپریل کو واپس بھیج دی گئیں۔
شہباز کہتے ہیں“پانچ سال کی جدوجہد، امید، اور انتظار… سب لمحے بھر میں خاک ہو گیا۔ میرا بچہ ماں سے الگ ہو گیا۔ ہمارا قصور کیا ہے؟”
’چالیس سال بعد جبری ملک بدری ‘
کشمیر کے فضل الرحمٰن کی بیوی پروینہ 1982 سے بھارت میں رہ رہی تھیں اور کبھی پاکستان واپس نہیں گئیں۔ اپریل میں انہیں بھیج دیا گیا اب وہ کراچی کے ایک ایسے رشتہ دار کے گھر رہ رہی ہیں جو خود فالج کا مریض ہے۔
ان کی بیٹی صولیحہ کہتی ہیں“میری تعلیم رک گئی ہے۔ میں گھر سنبھالوں، والدین کی دوائی لاؤں یا ماں کے لیے پریشان رہوں؟ حکومت ہمارے ساتھ ایسا کیوں کر رہی ہے؟”
’میری گود کے بچے تک چھین لیے گئے‘
کپواڑہ کے عبداللہ* کی دو جڑواں بچے — عیان اور عاطف — ابھی 18 ماہ کے تھے۔ ایک تو ابھی دودھ پیتا تھا۔ ان کی ماں تمرہ* کو بھی 29 اپریل کو بھیج دیا گیا۔
عبداللہ نے پولیس وین کے پیچھے اپنی گاڑی 500 کلومیٹر تک چلائی، مگر انہیں بچی سے الوداعی ملاقات تک نہ دی گئی۔
“بچے بیمار رہنے لگے، بار بار بخار، الٹیاں… میں دفتر بھی نہیں جا سکا۔ میں نے ہر جگہ درخواست دی، مگر کوئی سننے والا نہیں۔”





