
ٹک ٹاک پر امریکی پابندی مؤخر، چین سے ابتدائی معاہدہ، 170 ملین امریکی صارفین کو ریلیف
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکہ اور چین کے درمیان ٹک ٹاک ایپ کے مستقبل پر اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک ابتدائی معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت ٹک ٹاک پر امریکہ میں مکمل پابندی نہیں لگائی جائے گی، بلکہ اس کے امریکی اثاثے ایک نئی امریکی کنٹرولڈ کمپنی کو منتقل ہوں گے۔
صدر ٹرمپ نے وہائٹ ہاؤس بریفنگ میں کہا ہمارے پاس ٹک ٹاک پر معاہدہ ہے، بہت بڑی امریکی کمپنیاں اسے خریدنے کے لیے تیار ہیں۔
یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب 17 ستمبر کی ڈیڈلائن ختم ہونے میں صرف ایک دن باقی تھا۔ قانونی طور پر ٹک ٹاک کو یا تو فروخت ہونا تھا یا بند کر دیا جانا تھا۔ تاہم وہائٹ ہاؤس نے یہ ڈیڈلائن مزید 90 دن کے لیے بڑھا دی ہے اور اب نئی تاریخ 16 دسمبر 2025 ہوگی۔
معاہدے کی شرائط
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابقٹک ٹاک کے امریکی آپریشنز ایک نئی امریکی کمپنی کے تحت چلیں گے۔
کمپنی کے بورڈ میں زیادہ تر امریکی شہری شامل ہوں گے اور ایک رکن کو براہِ راست امریکی حکومت نامزد کرے گی۔
بائٹ ڈانس حتمی معاہدے کے بعد بھی 19.9 فیصد حصص رکھنے کا حق رکھے گی، جو امریکی قانون کے تحت مقرر کردہ 20 فیصد کی حد سے کم ہے۔
کمپنی ٹک ٹاک کے امریکی کوڈ اور ڈیٹا اسٹوریج کے آپریشنز کو سنبھالے گی تاکہ سیکیورٹی خدشات دور کیے جا سکیں۔
امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے کہا یہ ڈیل امریکی قومی سلامتی کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر ممکن نہیں تھی۔ ہم نے چینی مفادات کا بھی خیال رکھا ہے تاکہ تعلقات مزید نہ بگڑیں۔
چین کا ردعمل
چینی حکومت نے اس معاہدے کو ایک “فتحِ مشترک” قرار دیا اور کہا کہ یہ تعاون اور باہمی احترام پر مبنی ہے۔چینی وزارتِ تجارت نے زور دیا کہ معاہدے کی تمام شقیں چینی قانون کے مطابق ہوں گی، خاص طور پر الگورتھم اور ٹیکنالوجی کی ملکیت سے متعلق۔
بائٹ ڈانس تقریباً 19 فیصد تک اپنا حصہ برقرار رکھ سکتی ہے تاکہ کمپنی پر مکمل کنٹرول نہ کھوئے لیکن امریکی قانونی حد کے اندر رہے۔
تجارتی اور سیاسی پہلو
چین نے واضح کیا کہ یہ معاملہ صرف ایک نجی کمپنی کا نہیں بلکہ تجارت اور قومی سلامتی سے جڑا ہے۔ بیجنگ نے امریکہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور مواد کے نظم و نسق جیسے پہلو چین کے حقوق اور نظریاتی خودمختاری سے منسلک ہیں۔
چینی حکام کے مطابق، یہ معاہدہ امریکہ کے قومی سلامتی خدشات کو مدنظر رکھتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام امریکی مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں۔ چین نے کہا کہ وہ الگورتھم اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے شفاف اور قانونی فریم ورک چاہتا ہے۔