
یہ آپریشن نہیں،قتلِ عام تھا،ریو پولیس نے 130 سے زائد افراد مار ڈالے،رپورٹس
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) دن ابھی نکلا بھی نہیں تھا کہ ریو ڈی جنیرو کے علاقے ویلا کروزئیرو کی مرکزی گلیوں میں درجنوں لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ پولیس کے اب تک کے سب سے خونریز آپریشن میں 130 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ کچھ لاشیں مسخ شدہ، خون آلود اور جنگلوں سے گھسیٹ کر لائی گئی تھیں اور نیلی ترپالوں یا سیاہ پلاسٹک شیٹوں پر رکھ دی گئی تھیں۔
ایریویلٹن وِیڈال کورّیا جو مقامی رہائشی تنظیم کے سربراہ ہیں رات بھر جاگنے کے بعد تھکے ہوئے لہجے میں بتاتے ہیں
“میں خود 53 لاشیں نیچے لایا ہوں … پہاڑیوں میں اب بھی 12 سے 15 باقی ہیں۔”
وہ روتے ہوئے کہتے ہیں میں نے اپنی زندگی میں ایسا کبھی نہیں دیکھا، بھائی یہاں جو کچھ ہوا ہے وہ تو غزہ میں بھی نہیں ہوتا میں مزید لاشیں نہیں دیکھ سکتا۔
ریو کی تاریخ کا سب سے خونریز پولیس آپریشن
ریو حکام کے مطابق 2,500 اہلکاروں نے علی الصبح اور کے علاقوں پر چھاپہ مارا جو ویلا کروزئیرو سمیت کئی فویلاز پر مشتمل ہیں۔
پہلے دن شام تک سرکاری ہلاکتوں کی تعداد 64 بتائی گئی، مگر اگلے دن استغاثہ کے دفتر نے تصدیق کی کہ اموات کی تعداد 132 تک پہنچ چکی ہے جو 1992 کے جیل قتلِ عام (111 قیدی ہلاک) سے بھی زیادہ ہے۔
صبح 4 بجے سے 9 بجے کے درمیان گارڈین کے نمائندوں نے مشاہدہ کیا کہ درجنوں لاشیں سینٹ لوک اسکوائر میں لائی جا رہی تھیں۔راؤل سینتیاگوایک فویلا ایکٹیوسٹ نے کہا میں نے اپنی زندگی میں ایسا منظر نہیں دیکھا میں ابھی تک سمجھ نہیں پا رہا کیا ہوا۔ دل خالی ہے۔ الفاظ نہیں ہیں۔
لاشوں میں زیادہ تر نوجوان مرد تھے غالباً ڈرگ گینگ کے ارکان جنہیں اس کارروائی کا نشانہ بنایا گیا۔ کچھ لاشیں برہنہ تھیں، کچھ نے گھلی سوٹ (پودوں میں چھپنے کے لیے استعمال ہونے والا لباس) پہنا ہوا تھا۔
“یہ قتل تھا، قانون نافذ کرنا نہیں”
متعدد عینی شاہدین نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے نوجوانوں کو گرفتار کرنے کے بجائے موقع پر ہی گولی مار دی۔ راؤل سینتیاگو نے کہا چاہے وہ جرائم میں ملوث تھے یا نہیں، برازیل میں موت کی سزا نہیں ہے۔ انہیں گرفتار کیا جانا چاہیے تھا۔
سیدا سانتانا چیختے ہوئے بولیں“قاتل! قاتل! میرے بیٹے فابیو نے دوپہر 3 بجے مجھے پیغام بھیجا تھا کہ اس کے پاؤں میں گولی لگی ہے اور وہ پولیس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے اور اب وہ مر چکا ہے!
فابیو کی لاش ایک خون آلود چادر میں لپٹی تھی، سینے پر زخموں کے نشانات تھے۔ ماں دھاڑیں مار کر چیخی
“خداوندا! کوئی معجزہ کر!”
لیکن کوئی معجزہ نہ ہوا۔ درجنوں لاشیں ایک سوشی ریستوران کے سامنے قطار میں رکھی تھیں گولیاں، ٹوٹی ہڈیاں، کچھ کے جسم چھلنی، ایک کی سر قلم کر کے بیگ میں رکھ دیا گیا۔
“یہ ذبح تھا، آپریشن نہیں”
پریشان حال رشتہ دار چیختے، بین کرتے اور صحافیوں سے فریاد کر رہے تھے کہ وہ یہ مناظر دنیا کو دکھائیں۔کلاؤڈیا سلوا، 53 سالہ رہائشی، لرزتی ہوئی آواز میں بولیں“جب یہ یہاں آتے ہیں تو چوہے تک نہیں چھوڑتے۔ یہ نسل کشی ہے۔
سیدا سانتانا نے بیٹے کی لاش کے پاس بیٹھ کر کہا یہ آپریشن نہیں، قتلِ عام تھا۔ یہ مارنے آئے تھے۔انسانی حقوق کی وکیل فلیویا پنہیرو فروئیس نے کہا میں نے 30 سال فویلاز میں کام کیا ہے۔ اتنی بربریت پہلے کبھی نہیں دیکھی۔
ریو کے گورنر کا دفاع اور اقوام متحدہ کا ردعمل
ریو کے گورنر کلاڈیو کاسٹرو نے آپریشن کا دفاع کیا اور کہا کہ پولیس نے “منشیات فروش دہشت گردوں” کے خلاف سخت ضرب لگائی ہے۔ ان کے مطابق کل کے دن کے واحد متاثرین پولیس اہلکار تھے۔
لیکن اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے اس قتلِ عام پر “شدید صدمے” کا اظہار کیا۔چرچ کے پادری ایڈمار آگوستو نے لاشوں پر مقدس پانی چھڑکتے ہوئے کہا“ہم جنگ نہیں چاہتے، امن چاہتے ہیں۔ معاشرہ خاموش نہیں رہ سکتا۔”
مقامی رہنما کورّیا نے یاد کیا کہ بیس سال پہلے کچھ مشنریوں نے خبردار کیا تھا کہ ایک دن یہ فویلا عظیم قتلِ عام کا سامنا کرے گی ہم نے ان کی بات پر یقین نہیں کیا تھا۔ لیکن آج وہ پیشن گوئی سچ ہو گئی ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق
حکام کے مطابق ریو ڈی جنیرو میں منگل کے روز ہونے والے پولیس آپریشن میں ہلاکتوں کی تعداد 132 تک پہنچ گئی ہے — جو ابتدائی اعداد و شمار سے دگنی ہے۔
یہ کارروائی شمالی ریو کے غریب علاقوں میں ہوئی جہاں دہائیوں سے منشیات فروش گینگز قابض ہیں۔
گورنر کاسٹرو نے کہا کہ فورینزک تحقیقات مکمل ہونے تک سرکاری تعداد 58 اموات بتائی جا رہی ہے، مگر اصل تعداد “یقیناً زیادہ ہوگی”۔
صدر لولا دا سلوا نے اس واقعے پر “حیرت اور صدمے” کا اظہار کیا اور کہا کہ وفاقی حکومت کو پہلے سے اطلاع نہیں دی گئی تھی۔اقوام متحدہ نے اسے “خوفناک پولیس آپریشن” قرار دیا۔
بدھ کی صبح، رہائشیوں نے درجنوں لاشیں اسکوائر میں لا کر زمین پر قطار میں رکھ دیں تاکہ دنیا دیکھ سکے کہ کیا ہوا۔پولیس کے مطابق زیادہ تر جھڑپیں قریبی پہاڑیوں میں ہوئیں، جہاں مبینہ طور پر گینگ ارکان نے ڈرونز سے پولیس پر بم بھی پھینکے۔
گورنر کاسٹرو نے کہا یہ عام جرائم نہیں بلکہ نرکو-ٹیررازم ہے۔
انہوں نے آپریشن کو “تاریخی دن” قرار دیتے ہوئے چار ہلاک پولیس اہلکاروں کو “ہیرو” کہا۔مقامی صحافی رافیل سوارس کے مطابق، یہ کارروائی اگلے سال کے انتخابات سے قبل گورنر کاسٹرو کی سیاسی ساکھ مضبوط کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔
برازیل میں اس نوعیت کے آپریشن شاذ و نادر ہی اتنے ہلاکت خیز ہوتے ہیں عام طور پر بیس سے زائد ہلاکتیں بہت کم دیکھی جاتی ہیں۔
ریو کے وزیرِ عوامی تحفظ وِکٹر سانتوس نے کہا ہے کہ یہ ریو ڈی جنیرو میں ایک جنگ ہے۔ دہائیوں کی غفلت نے جرائم کو اتنا پھیلنے دیا ہے کہ اب پورا نظام بے بس ہے۔




