
Palestinian prisoner Khalil Zama' (R) hugs his mother after being released from an Israeli jail in exchange for Israeli hostages released by Hamas from the Gaza Strip, at his home in Halhul village north Hebron in the occupied West Bank on November 27, 2023. Israel's prison service said 39 Palestinian detainees were released on November 26, 2023 under the terms of a truce agreement between Israel and Hamas in the Gaza Strip. The announcement came after 13 Israeli hostages were freed in the Palestinian territory under the deal, along with three Thais and a Russian-Israeli dual citizen. (Photo by HAZEM BADER / AFP) (Photo by HAZEM BADER/AFP via Getty Images)
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) حماس کے سیاسی بیورو کے رکن خلیل الحیہ نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جنگ کے خاتمے تک اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں مزید کہا کہ “جنگ کو روکے بغیر قیدیوں کا تبادلہ نہیں ہو گا، کیونکہ یہ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی مساوات ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جارحیت رک جائے اور کسی بھی قیدی کے تبادلے کے لیے اسے پہلے جنگ کو روکنا چاہیے”۔
الحیہ جنہوں نے مصری اور قطری ثالثوں کے ساتھ بات چیت میں تحریک کی مذاکراتی ٹیم کی قیادت کی اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کو جنگ بندی مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
الحیہ نے کہا کہ “اس مسئلے کو آگے بڑھانے کے لیے کچھ ممالک اور ثالثوں کے ساتھ رابطے جاری ہیں۔ ہم تیار ہیں اور ان کوششوں کو جاری رکھنے کے لیے پہل کر رہے ہیں‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ “حقیقت ثابت کرتی ہے کہ رکاوٹ ڈالنے والا نیتن یاہو ہے۔ یہ حقیقت قریب اور دور کے ہر شخص کو معلوم ہے‘‘۔
نیتن یاہو نے منگل کو اپنے غزہ کے دورے کے دوران کہا کہ حماس جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ فلسطینی پٹی پر حکومت نہیں کرے گی۔ اسرائیل نے تحریک کی فوجی صلاحیتوں کو تباہ کر دیا ہے۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ اسرائیل نے بقیہ 101 قیدیوں کو تلاش کرنے کی کوشش ترک نہیں کی ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ابھی بھی غزہ کی پٹی میں موجود ہیں، اور ان میں سے ہر ایک کی واپسی کے لیے 50 لاکھ ڈالر کے انعام کی پیشکش کی ہے۔
حماس ایک ایسے معاہدے پر پہنچنا چاہتی ہے جس میں جنگ کا خاتمہ ہو اور اس میں غزہ میں زیر حراست اسرائیلی اور غیر ملکی قیدیوں کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی رہائی بھی شامل ہو۔