ایمانی خلیف، ایک الجیریا کی باکسر، جس نے 2018 میں خواتین کی عالمی باکسنگ چیمپئن شپ میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ ان کا ڈیبیو ایک کامیاب قدم تھا، لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں صنفی تنازعے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 2018 میں بین الاقوامی باکسنگ ایسوسی ایشن نے اس تنازعے پر انہیں نااہل قرار دیا، مگر ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔
اب 2024 میں پیرس اولمپکس کی تیاری کے دوران، انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے ایمانی کو صنفی اعتبار سے اہل قرار دیتے ہوئے اولمپکس میں شرکت کی اجازت دی۔ مگر وویمن باکسنگ کے پہلے راؤنڈ میں، اٹلی کی اینجلا کیرنی نے صرف 46 سیکنڈز کے بعد ہی مقابلہ کرنے سے انکار کردیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایمانی میں مردوں والی خصوصیات زیادہ ہیں اور وہ صنفی اہلیت کے معیار پر پورا نہیں اترتیں۔
یہ واقعہ ایک نئی بحث کا آغاز بن گیا۔ سوشل میڈیا پر ایلون مسک سمیت کئی مشہور شخصیات نے ایمانی پر تنقید کی۔ لیکن جہاں تنقید ہوئی، وہاں حمایت بھی ملی۔ تاہم، ایمانی نے اس تنازعے سے بالاتر ہوکر اپنی اولمپکس مہم پر توجہ مرکوز رکھی۔
ایمانی کے عزم اور محنت کا صلہ انہیں گولڈ میڈل کی صورت میں ملا، اور وہ اولمپکس باکسنگ میں الجیریا کی پہلی گولڈ میڈلسٹ بن گئیں۔ وطن واپسی پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا، مگر ایمانی اپنی صنف پر ہونے والی تنقید کو نہیں بھولیں۔ اس کے علاوہ حال ہی میں ٹی وی پریزینٹر لورا ووڈس نے شیئر کیا کہ انہیں دو اولمپک باکسنگ چیمپیئن ایمانی خلیف اور لن یو-ٹنگ کی اہلیت کے بارے میں ایک مضمون پر تبصرہ کرنے کے بعد آن لائن جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئیں۔
اب، ایمانی سوشل میڈیا پر ایک مضبوط مہم چلا رہی ہیں کہ وہ ایک عورت ہیں، اور وہ اپنی صنف کی وجہ سے ہونے والی تنقید کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ انہوں نے آن لائن ہراساں کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کا بھی فیصلہ کیا ہے، جن میں ایلون مسک اور جے کے رولنگ جیسے نامور افراد بھی شامل ہیں۔ ایمانی کے وکیل نے مقدمے میں دعویٰ کیا کہ یہ رویہ نسل پرستی، بدتمیزی اور جنس پرستی پر مبنی ہے۔
یہ واقعہ ایک بڑے سوال کو جنم دیتا ہے وہ یہ کہ کیا معاشرے کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی انسان کو اس کی صنف، رنگ، یا نسل کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنائے؟ آج کے ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ معاشرے میں یہ سوال بہت اہم ہے۔ کیونکہ اس بحث کی وجہ سے اس کے بطور ایک پروفیشنل باکسر تمام تر صلاحیتوں کو پس پشت ڈال دیا گیا اور اب اس کا تعارف یہ بحث بن گئی ہے کہ آیا وہ مرد ہے یا عورت ۔
ایمانی کی مہم ایک واضح پیغام ہے کہ وہ ایک عورت ہیں اور انہیں کسی بھی صنفی تعصب کا شکار نہیں بنایا جا سکتا اور ساتھ ہی یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آج کے دور میں سوشل میڈیا ایک ایسی طاقت ہے جس پہ آپ جو بھی مہم چلائیں لوگو آپ کو وہی سمجھنے لگتے ہیں چاہے آپ حقیقت میں کچھ اور ہوں ۔