
شام میں اسد کے زوال کی پہلی سالگرہ کی تیاریاں مگر ایک کروڑ 65 لاکھ افراد امداد کے منتظر
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) جب شام پیر کے روز بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کی پہلی سالگرہ منانے کی تیاری کر رہا ہے۔ تو جنگ سے تباہ حال یہ ملک ایک بڑے سیاسی موڑ کا جشن بھی منا رہا ہے اور ساتھ ہی گہری تقسیم وقفے وقفے سے ہونے والی جھڑپوں اور ایک دہائی سے زائد عرصے کی جنگ کے بعد تعمیرِ نو کے مشکل مرحلے سے بھی دوچار ہے۔
شامی عوام پیر کے روز بشار الاسد اور ان کی آہنی گرفت والی حکمرانی کے خاتمے کی پہلی سالگرہ منائیں گے، جبکہ یہ بٹا ہوا ملک سالہا سال کی لڑائی کے بعد استحکام اور بحالی کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سرکاری تقریبات دمشق کے مرکزی اموی اسکوائر میں منعقد ہوں گی جو 8 دسمبر سے قبل ہی خوشی کے اظہار کی بڑی سرگرمیوں سے بھر چکا ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں بھی تقریبات ہوں گی۔
ایک سال قبل جب احمد الشرع کی قیادت میں باغیوں نے دمشق پر قبضہ کیا تو اسد شام چھوڑ کر روس فرار ہو گئے تھے۔ یوں ان کا 13 سال سے زائد عرصے پر محیط وہ اقتدار ختم ہوگیا جو ایک عوامی بغاوت کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی کے دوران قائم تھا۔
اسد کے خاتمے کی پہلی سالگرہ قریب، شامی عوام جشن مناتے ہوئے
ملک کے بعض علاقوں میں کئی دنوں سے جشن منایا جا رہا ہے۔جمعہ کے روز ہزاروں افراد حماہ کی سڑکوں پر نکل آئے، انہوں نے شام کے نئے قومی پرچم لہرائے اور اس دن کو یاد کیا جب الشرع کی اسلامی تنظیم “حیات تحریر الشام” کے جنگجوؤں نے اپنے تیز پیش قدمی کے دوران شہر پر قبضہ کیا تھا۔
شامی عوام سے اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی اپیل
شمال مشرق پر قابض کردوں کی زیر قیادت انتظامیہ نے سالگرہ پر شامیوں کو مبارکباد پیش کی ہے، مگر کسی بھی اجتماع یا تقریب پر پابندی لگا دی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ “دہشت گرد سیلز” اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں، اس لیے سکیورٹی خدشات بڑھ گئے ہیں۔
گزشتہ ماہ اپنی کامیاب فوجی مہم کے ایک سال مکمل ہونے پر ایک خطاب میں، الشرع جو القاعدہ کے سابق کمانڈر رہ چکے ہیں۔انہوں نے تمام شامیوں پر زور دیا کہ وہ خوشی کے اظہار اور قومی اتحاد کے ثبوت کے طور پر ملک کے تمام بڑے چوراہوں پر جمع ہوں۔
الشرع شام کی خارجہ پالیسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لائے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ تعلقات بحال کیے، خلیجی عرب ممالک کی حمایت حاصل کی، اور اسد کے اتحادی ایران اور روس سے فاصلہ اختیار کیا۔ مغربی ممالک کی لگائی گئی سخت پابندیوں کا بڑا حصہ بھی ختم ہو چکا ہے۔
الشرع نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اسد کے جابرانہ سکیورٹی اسٹیٹ کی جگہ ایک جامع اور منصفانہ نظام قائم کریں گے۔
تاہم ملک میں وقفے وقفے سے ہونے والی فرقہ وارانہ خونریزی میں سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جس نے نئی نقل مکانی کو جنم دیا ہے اور اقلیتی برادریوں میں حکومت الشرع پر بداعتمادی بڑھائی ہے، کیونکہ وہ ملک کے تمام حصوں کو دوبارہ دمشق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
“شام آج اپنے بہترین دور سے گزر رہا ہے”
کرد انتظامیہ اپنے علاقائی خودمختاری کے تحفظ کی کوشش کر رہی ہے جبکہ جنوب میں کچھ دروزی جو اسلام سے نکلنے والے ایک اقلیتی مذہبی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
الشرع نے قطر میں ایک فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شام آج اپنے بہترین دور سے گزر رہا ہے، باوجود کہ بعض علاقوں میں تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں۔ انہوں نے ذمہ دار افراد کے احتساب کا وعدہ بھی کیا۔
انہوں نے کہا کہ ان کی قیادت میں عبوری دور مزید چار سال جاری رہے گا، جس کے دوران نئے ادارے، قوانین اور ایک نیا آئین تشکیل دیا جائے گا، جو عوامی ریفرنڈم کے ذریعے منظور کرایا جائے گا، جس کے بعد ملک میں انتخابات ہوں گے۔
اسد خاندان، جو شام کی علوی اقلیت سے تعلق رکھتا ہے، نے 54 سال تک شام پر حکمرانی کی۔
شامی جنگ 2011 سے اب تک لاکھوں جانیں نگل چکی ہے اور لاکھوں افراد کو بے گھر کر چکی ہے، جن میں سے تقریباً 50 لاکھ ہمسایہ ممالک میں بطور پناہ گزین مقیم ہیں۔
گزشتہ ہفتے رائٹرز نیکسٹ کانفرنس میں شامی مرکزی بینک کے گورنر نے کہا کہ تقریباً 15 لاکھ پناہ گزینوں کی واپسی سے ملکی معیشت کو تقویت مل رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے ہم آہنگیِ انسانی امور کے مطابق، 2025 میں شام میں 1 کروڑ 65 لاکھ افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہوگی۔



