
پیوٹن کا یوکرین کو مذاکرات یا طاقت سے جنگ ختم کرنے کا انتباہ:
دورہ چین کے اختتام پر پیوٹن نے بیجنگ میں اہم بیان دیتے ہوئے کہا کہ زیلنسکی سے ملاقات کا امکان رد نہیں کرتے لیکن نتیجہ خیز ہونی چاہیے اگر دانشمندی کا مظاہرہ کیا گیا تو مذاکرات سےجنگ ختم ہو سکتی ہے۔
روسی صدر نے دوٹوک کہا کہ مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہتھیاروں سےختم کریں گے۔
ٹرمپ کی پالیسیوں پر ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ امریکی انتظامیہ کا رویہ امن کےلیے سنجیدہ لگ رہا ہے صدر ٹرمپ کی حکومت کا حل تلاش کرنے کا خلوص نظر آ رہا ہے روشنی کی ایک کرن دکھائی دے رہی ہے دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔
پیوٹن کا کہنا تھا کہ یوکرین کو نیٹو میں شمولیت کا خیال ترک کرنا ہو گا زیلنسکی ماسکو آئیں تو مذاکرات ہو سکتے ہیں۔
ماسکو نے ایسے اقدامات کیے جو اُنہیں پسند نہ آئے، تو اس کے نتائج سامنے آئیں گے، ٹرمپ
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو یوکرین کے معاملے پر ایک مبہم مگر سخت پیغام دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر ماسکو نے ایسے اقدامات کیے جو اُنہیں پسند نہ آئے، تو اس کے نتائج سامنے آئیں گے۔
وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ وہ آنے والے دنوں میں پیوٹن سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن روسی صدر کو اُن کی حکومت کے مؤقف کا پہلے ہی علم ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہمیرے پاس صدر پیوٹن کے لیے کوئی پیغام نہیں ہے، وہ جانتے ہیں کہ میرا مؤقف کیا ہے، اور وہ کوئی نہ کوئی فیصلہ کریں گے، جو بھی ان کا فیصلہ ہوگا، ہم یا تو خوش ہوں گے یا ناخوش، اور اگر ہم ناخوش ہوئے، تو آپ چیزیں ہوتے دیکھیں گے۔
ٹرمپ کا یہ بیان پیوٹن کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ یوکرینی صدر زیلنسکی سے ماسکو میں ملاقات کے لیے تیار ہیں، جو کہ ٹرمپ کی جانب سے جنگ ختم کرانے کے لیے ایک معاہدے کی کوشش کا حصہ ہے۔
پیوٹن کے بیان پر یوکرین کا ردعمل:
یوکرینی وزیر خارجہ آندریئی سیبیہا نے پیوٹن کے بیان کے جواب میں کہا کہ سات ممالک کی طرف سے ایسی ملاقات کے لیے سنجیدہ تجاویز موجود ہیں، اور زیلنسکی کسی بھی وقت ملاقات کے لیے تیار ہیں۔
Right now, at least seven countries are ready to host a meeting between leaders of Ukraine and Russia to bring an end to the war. Austria, the Holy See, Switzerland, Türkiye, and three Gulf states.
These are serious proposals and President Zelenskyy is ready for such a meeting… pic.twitter.com/b19VquSEFU
— Andrii Sybiha 🇺🇦 (@andrii_sybiha) September 3, 2025
انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ پیوٹن جان بوجھ کر ایسے ناقابل قبول مشورے دے کر سب کو الجھاتے رہتے ہیں، روس کو امن عمل میں سنجیدہ بننے پر مجبور کرنے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہی واحد راستہ ہے۔
روس-یوکرین تنازع: امن معاہدے کے لیے پُرعزم ہوں، ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان امن معاہدہ کرانے کے لیے پرعزم ہیں، اگرچہ دونوں ممالک کے صدور کے درمیان براہِ راست مذاکرات کی راہ ابھی ہموار نہیں ہو سکی۔
امریکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں ٹرمپ نے بتایا کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی دونوں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق، “فی الحال دونوں ممالک جنگ بندی پر آمادہ نہیں، لیکن ہم یہ معاہدہ کر کے دکھائیں گے۔”
ٹرمپ نے کہا کہ وہ یوکرین جنگ میں جاری خونریزی پر ناخوش ہیں مگر امن قائم کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ جلد اس معاملے پر مزید بات چیت کریں گے، خاص طور پر اس کے بعد کہ اگست میں الاسکا میں پیوٹن کے ساتھ ان کی ملاقات کسی بڑی پیش رفت کے بغیر ختم ہوگئی تھی۔
وائٹ ہاؤس حکام کے مطابق، صدر ٹرمپ کی زیلنسکی سے فون پر گفتگو جمعرات کو متوقع ہے۔
شمالی کوریا کا خود مختاری کے دفاع کے لیے روس کی کوششوں کی ‘مکمل حمایت’ کرنے کا اعلان:
شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا نے جمعرات کو رپورٹ کیا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے بیجنگ میں ملاقات کے دوران طویل مدتی تعاون کے منصوبوں پر بات چیت کی، جبکہ کم نے ماسکو کو ’’مکمل‘‘ حمایت دینے کا عزم ظاہر کیا۔
دونوں رہنماؤں کی ملاقات بدھ کے روز بیجنگ میں ہوئی، جہاں انہوں نے دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ فوجی پریڈ میں شرکت کی۔
اس ملاقات میں پیوٹن نے کہا کہ روس ہمیشہ ان قربانیوں کو یاد رکھے گا جو شمالی کوریائی فوجیوں نے ماسکو کی یوکرین جنگ کے لیے دی ہیں۔
کم نے زور دیا کہ شمالی کوریا ماسکو کی مدد کو اپنا ’’برادرانہ فرض‘‘ سمجھتا ہے اور کہا کہ اس کا ملک روس کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کی کوششوں کو ’’مکمل‘‘ طور پر سپورٹ کرے گا۔
یہ دونوں رہنماؤں کے درمیان چوتھی دوطرفہ ملاقات تھی۔ اس سے قبل پیوٹن اور کم نے گزشتہ سال پیونگ یانگ میں ایک جامع اسٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت کسی تیسرے فریق کے حملے کی صورت میں دونوں ممالک کو ایک دوسرے کو عسکری مدد فراہم کرنا لازمی ہے۔
کم نے اس بین الریاستی معاہدے کو ’’مکمل ایمان داری‘‘ سے نافذ کرنے کا عزم ظاہر کیا اور کہا کہ وہ مستقبل میں بھی روس کی مدد کو ’’برادرانہ فرض‘‘ سمجھتے ہیں۔
جنوبی کوریا کی خفیہ ایجنسی کے مطابق، شمالی کوریا نے گزشتہ اکتوبر سے اب تک تقریباً 15,000 فوجی اور ہتھیار روس کی جنگی مدد کے لیے بھیجے ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ یوکرین کی جنگ میں تقریباً 2,000 شمالی کوریائی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
کریملن کے مطابق، بیجنگ ملاقات کے دوران پیوٹن نے کہا کہ شمالی کوریا نے کم کی ہدایت پر روس کے کورسک ریجن میں یوکرینی فوجیوں کے خلاف فوجی تعینات کیے۔