
یوکرین امن کوششوں کے دوران پیوٹن کا دورہ بھارت: ایجنڈے میں کیا ہے؟
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) عالمی خبر رساں ادارے ” الجزیرہ “ کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن جمعرات سے بھارت کا دورہ کر رہے ہیں، یہ ان کا پہلا دورہ ہے جب سے روس کی یوکرین کے خلاف جنگ کو چار سال سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ یہ دورہ اس وقت ہو رہا ہے جب امریکہ کی جانب سے جنگ ختم کرنے کی تازہ کوششیں بظاہر ماند پڑتی نظر آ رہی ہیں۔
پیوٹن کا 30 گھنٹے کا تیز رفتار دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب واشنگٹن اور نئی دہلی کے تعلقات میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ امریکہ نے روس کے ساتھ بھارت کے تاریخی تعلقات اور یوکرین جنگ کے دوران روسی خام تیل کی خریداری میں اضافے کے باعث بھارت پر ٹیرف اور پابندیوں کی دھمکی دی ہے۔
اس دباؤ نے بھارت کے لیے روس اور مغرب کے درمیان اپنے روایتی توازن کو مزید نازک بنا دیا ہے۔
انیس سو سینتالیس (1947) میں برطانیہ سے آزادی کے بعد سے بھارت نے بڑی طاقتوں کے اتحادوں سے دور رہنے کی پالیسی اپنائی اور سرد جنگ کے دوران عدم وابستگی کی تحریک کی قیادت کی۔اگرچہ عملی طور پر 1960 کی دہائی کے بعد وہ سوویت یونین کے قریب رہا۔ سرد جنگ کے بعد بھارت نے امریکہ کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک اور عسکری تعلقات مضبوط کیے جبکہ روس کے ساتھ دوستی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔
تاہم روس کی یوکرین جنگ نے اس توازن کو بری طرح ہلا دیا ہےاور پیوٹن کا یہ دورہ اس بات کا اشارہ دے سکتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کس طرح ان مقابل طاقتوں کے درمیان راستہ نکالنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
پیوٹن کے شیڈول میں کیا ہے؟
پیوٹن جمعرات کی رات نئی دہلی پہنچیں گے جہاں مودی کی سرکاری رہائش گاہ پر ان کے اعزاز میں ایک نجی عشائیہ ہوگا۔
جمعہ 5 دسمبر کی صبح وہ راشٹرپتی بھون پہنچیں گے، جہاں گارڈ آف آنر اور بھارتی صدر دروپدی مرمو سے ملاقات طے ہے۔ اس کے بعد تمام غیر ملکی رہنماؤں کی طرح وہ راج گھاٹ میں مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔
اس کے بعد پیوٹن اورمودی حیدرآباد ہاؤس میں ملاقات کریں گے جہاں سالانہ انڈیا – روس سربراہی اجلاس کا نیا دور شروع ہوگا ۔ بعد ازاں دونوں رہنما کاروباری شخصیات سے ملیں گے اور پھر صدر مرمو کی جانب سے دیے گئے سرکاری عشائیے میں شرکت کریں گے۔
کریملن نے اس دورے کو “انتہائی اہم” قرار دیا ہے ۔
پیوٹن کے ساتھ دفاعی وزیر آندرے بیلوسوف اور صنعت، تجارت اور اسلحہ کے شعبوں سے ایک بڑی وفد شامل ہے، جن میں روسی اسلحہ ساز کمپنی روسوبورون ایکسپورٹ سمیت پابندیوں کا سامنا کرنے والی روسنیفٹ اور گیزپروم نیفٹ کے سربراہان بھی شریک ہیں۔
دورے کی ٹائمنگ کیوں اہم ہے؟
یہ دورہ بھارت اور روس کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری کے 25 سال مکمل ہونے پر ہورہا ہے جو پہلی بار پیوٹن کے دورِ اقتدار کے آغاز میں قائم ہوئی تھی۔
دوہزار (2000) سے دونوں ممالک میں ایک روایت رہی ہے کہ ہر سال سربراہی اجلاس ہوتا ہے۔ایک سال بھارتی وزیر اعظم روس جاتے ہیں اگلے سال روسی صدر بھارت آتے ہیں۔
لیکن یہ روایت 2022 میں ٹوٹ گئی،جس سال روس نے یوکرین پر حملہ کیا۔ مودی کو ماسکو جانا تھا مگر اجلاس ملتوی ہوگیا۔
دو ہزار تئیس (2023) میں پیوٹن نے نئی دہلی میں ہونے والے جی 20 اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ زیادہ تر وجہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (اآئی سی سی) کا جاری کردہ وارنٹ تھا۔
دو ہزار چوبیس (2024) میں روایت بحال ہوئی جب مودی ماسکو گئے اور اب چار سال بعد پیوٹن بھارت آرہے ہیں۔
ایجنڈے میں کیا شامل ہے؟
،تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کو مزید روسی میزائل سسٹم اور لڑاکا طیارے بیچنے کی کوشش،دو طرفہ تجارت میں اضافے کے نئے شعبےفارماسیوٹیکلز، زرعی مصنوعات، مشینری،دفاعی تعاون میں توسیع شامل ہے۔
سینیئر تجزیہ کار پروین کے مطابق یہ اجلاس بھارت کے لیے اپنی خصوصی اسٹریٹجک شراکت داری کو برقرار رکھنے کا موقع ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ٹرمپ بھارت پر سخت دباؤ ڈال رہے ہیں۔
جے این یو کے پروفیسر راجن کمار کے مطابق پیوٹن چاہتے ہیں کہ دنیا کو دکھائیں کہ روس تنہا نہیں۔ بھارت جیسے بڑے جمہوری ملک میں استقبال ان کے لیے ایک اہم علامتی پیغام ہے۔تاہم تیل کی تجارت جو دونوں کے معاشی تعلقات کی بنیاد ہے،اب خطرے میں ہے۔
کیا ٹرمپ اس اجلاس کے پس منظر میں ایک بڑا عنصر ہیں؟
روسی تیل پر بھارت کا انحصار 2022 کے بعد ٪ 1 سے بڑھ کر ٪ 40 ہو گیا۔ امریکہ نے پہلے خاموشی سے بھارت کی حوصلہ افزائی کی،تاکہ تیل کی عالمی قیمتیں نہ بڑھیں۔اب، ٹرمپ نے پہلے ٪25 پھر ٪ 50 ٹیرف بھارت پر لگا دیے۔
روسنیفٹ اور لوکوئل پر پابندیاں
روسی تیل خریدنے والی غیر ملکی کمپنیوں کو بھی نشانہ بنانے کی دھمکی،اس کے نتیجے میںبھارت کی روسی تیل کی درآمدات تین سال کی کم ۔ترین سطح پر آنے والی ہیں۔ریلائنس نے روسی تیل استعمال کرکے بنائے گئے پیٹرولیم مصنوعات کی برآمدات روک دیں۔
بھارت نے امریکہ سے گیس کی درآمدات بڑھانے کا بڑا معاہدہ کیا ہے
دفاعی خریداری کے شعبے میں بھی امریکہ دباؤ بڑھا رہا ہے کہ بھارت روس سے کم اور واشنگٹن سے زیادہ خریدے۔لیکن بھارت یہ دباؤ مکمل طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں۔
بھارت–روس کے مضبوط تعلقات کس شعبے میں ہیں؟
دفاعی شعبہ
بھارت کے ٪ 36 اسلحہ کی درآمدات اب بھی روس سے آتی ہیں
بھارت کے ٪ 60 سے زیادہ موجودہ ہتھیار روسی ساختہ ہیں
دوہزار دس میں یہ حصہ ٪ 72 تھا—اگرچہ اب تنوع بڑھ رہا ہے
ایس 400 میزائل سسٹم بھارت کی فضائی صلاحیت کا مرکزی حصہ بن چکا ہے۔
پروفیسر راجن کمار کے مطابق
بھارت مزید ایس 400 خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے
روس چاہتا ہے کہ بھارت ایس یو-57 اسٹیلتھ فائٹر جیٹ بھی خریدے
پیسکوف کے مطابق: “ایس یو-57 دنیا کا بہترین طیارہ ہےاور یہ ایجنڈے میں شامل ہے”
بھارت–روس تجارت کا مستقبل کیا ہے؟
دو ہزار بائیس کے بعد دو طرفہ تجارت:
دس (10) ارب ڈالر – 69 ارب ڈالر
(زیادہ تر سستا روسی تیل خریدنے کی وجہ سے)
لیکن مسئلہ یہ ہے
بھارت کی برآمدات صرف 5 ارب ڈالر
بھارت کا روس کے ساتھ تجارتی خسارہ 64 ارب ڈالر
اب جب تیل کی تجارت کم ہوگی، تو کل تجارت بھی نیچے جائے گی، اور 2030 تک 100 ارب ڈالر کا ہدف دور دکھائی دیتا ہے۔
لیبر مائیگریشن—نیا امکان
روس میں 2030 تک 3.1 ملین مزدوروں کی کمی متوقع ہے
روس بھارتی کارکنوں کو بلانے میں دلچسپی رکھتا ہے
ماہرین کے مطابق یہ انسانی اور معاشی روابط کو مضبوط کر سکتا ہے
لیکن اصل مسئلہ وہی رہتا ہے
بھارت روس کو ناراض کیے بغیر امریکہ کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتا۔
بھارت ایک ساتھ امریکہ، یورپی یونین اور روس کے زیرِ قیادت یوریشین اکنامک یونین سے تجارتی معاہدوں پر بات کر رہا ہے—یہ ایک نازک توازن ہے۔
امن معاہدہ—سب کے لیے واحد مثبت نتیجہ؟
تجزیہ کاروں کے مطابق یوکرین اور روس کے درمیان امن معاہدہ وہ واحد چیز ہے جو بھارت کو اس مشکل توازن سے نکال سکتی ہے۔




