
پاکستان میں غربت کی شرح کم ہو کر 22.2 فیصد رہ گئی،ورلڈ بینک کا دعویٰ
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ایکسپریس ٹربیون کی ایک رپورٹ کے مطابق ورلڈ بینک نے منگل کے روز دعویٰ کیا کہ پاکستان کی غربت کی شرح کم ہو کر 22.2 فیصد پر آ گئی ہے اور رواں سال یہ مزید گھٹ کر کورونا سے قبل کی سطح تک پہنچ جائے گی، تاہم ادارے نے یہ بھی واضح کیا کہ موجودہ اقتصادی ترقی کی شرح اتنی نہیں کہ اس سے عوامی معیارِ زندگی میں بہتری یا غربت میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکے۔
ادارے کے بظاہر متضاد بیانات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان کے بارے میں تازہ اور قابلِ اعتماد اعداد و شمار کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ ورلڈ بینک نے بھی یہ تخمینہ 2019 کے کھپت کے اعداد و شمار پر مبنی ایک تخیلاتی ماڈل کے ذریعے لگایا ہے۔
واشنگٹن میں قائم اس عالمی مالیاتی ادارے نے اپنی سالانہ “پاکستان ڈیولپمنٹ اپڈیٹ” رپورٹ جاری کی، جس میں غربت میں کمی کا رجحان ظاہر کیا گیا ہے — جو اس کے ایک ماہ پرانے بیان سے متضاد ہے جس میں کہا گیا تھا کہ موجودہ معاشی ماڈل غربت کم کرنے کے قابل نہیں۔
ورلڈ بینک نے پاکستان کی شرحِ نمو (جی ڈی پی گروتھ) کا تخمینہ بھی بڑھا کر 3 فیصد کر دیا ہے جو چند روز قبل کے 2.7 فیصد تخمینے سے کچھ بہتر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ غربت کی شرح پہلے ہی 22.2 فیصد تک گر چکی ہے اور رواں مالی سال کے اختتام تک مزید گھٹ کر 21.5 فیصد ہونے کا امکان ہے۔ تاہم، ورلڈ بینک کے ماہرِ اقتصادیات مختارالْحسن نے کہا کہ موجودہ شرحِ نمو عوامی معیارِ زندگی بہتر بنانے اور غربت گھٹانے کے لیے ناکافی ہے۔
دی ایکسپریس ٹریبیون کے سوال پر ورلڈ بینک کی ماہرِ غربت کرسٹینا ویسر نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ حکومت کے دباؤ پر ادارے نے پچھلے مہینے کی منفی پیشگوئی تبدیل کی۔
گزشتہ ماہ ورلڈ بینک نے کہا تھا کہ“پاکستان کا معاشی ماڈل جو ابتدائی غربت میں کمی لانے میں کارآمد تھا،اب ناکافی ثابت ہوا ہے اور 2021-22 سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ویسر نے وضاحت کی کہ تازہ ترین گھریلو کھپت کے اعداد و شمار نہ ہونے کے باعث بینک نے کچھ مضبوط مفروضات پر مبنی ماڈل استعمال کیا، جن سے غربت میں کمی ظاہر ہوئی۔انہوں نے بتایا کہ ورلڈ بینک نے یہ فرض کیا کہ معاشی شعبوں میں ترقی کا فائدہ مزدوروں کی اجرتوں میں مکمل طور پر منتقل ہوا ہے۔
تاہم، انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ مفروضہ درست نہیں ہو سکتا کیونکہ کچھ سرکاری محکمے بھی کم از کم اجرت 37,000 روپے ادا نہیں کر رہے اور موجودہ بجٹ میں اجرتوں میں اضافہ بھی نہیں کیا گیا۔
ویسر نے مزید کہا کہ جیسے ہی نیا ہاؤس ہولڈ انٹیگریٹڈ اکنامک سروے (ایچ آئی ای ایس) ڈیٹا دستیاب ہوگا، ورلڈ بینک اپنے غربت کے تخمینوں میں مزید تبدیلیاں کرے گا۔
ورلڈ بینک کے اسلام آباد دفتر میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے ویسر نے کہا کہ زیادہ شرحِ نمو اور کم افراطِ زر نے غربت میں کمی میں کردار ادا کیا، جس کے مطابق قومی غربت کی لکیر پر ناپی جانے والی غربت جون 2024 کے 25.3 فیصد سے کم ہو کر 22.2 فیصد پر آ گئی۔
انہوں نے کہا کہ تعمیرات اور لاجسٹکس کے شعبوں میں مضبوط ترقی — جہاں پاکستان کے تقریباً 25 فیصد غریب مزدور کام کرتے ہیں — نے ان کی آمدن میں اضافہ کیا۔ تاہم پچھلے مہینے بینک نے کہا تھا کہ تعمیراتی شعبے میں کم اجرتوں کے باعث غربت بڑھ رہی ہے۔
ویسر کے مطابق خوراک کی مہنگائی میں کمی نے قیمتوں کے دباؤ کو کم کیا اور غریب طبقے کی خریداری کی طاقت بہتر بنائی، جو اپنی آمدن کا 45 فیصد خوراک پر خرچ کرتے ہیں۔
لیکن رپورٹ نے خبردار کیا کہ سیلابوں سے دیہی غریب گھرانے متاثر ہوئے ہیں، جن کے زرعی وسائل ضائع ہوئے، بچتیں محدود ہیں اور بحالی کے انتظامات ناکافی۔
رپورٹ کے مطابق، بڑھتی ہوئی خوراک کی مہنگائی اور غیر رسمی ملازمتوں کی غیر یقینی صورتِ حال نے خطرات میں اضافہ کیا ہے۔ نتیجتاً آئندہ سالوں میں غربت کی کمی کی رفتار سست رہے گی جو 2026 میں 21.5 فیصد اور 2027 میں 20.6 فیصد تک جانے کا امکان ہے۔
ورلڈ بینک نے کہا کہ 2019 سے اب تک پاکستان کو کئی بڑے جھٹکوں کا سامنا رہا جیسے کووِڈ-19 وبا، 2022 کے تباہ کن سیلاب، اور سیاسی عدم استحکام سے بڑھا ہوا معاشی بحران۔
چونکہ تازہ ڈیٹا موجود نہیں، لہٰذا ادارہ ایک مائیکرو سمیولیشن ماڈل کے ذریعے اندازہ لگا رہا ہے کہ معاشی اشارے جیسے شرحِ نمو، افراطِ زر، ٹیکس و منتقلیاں براہِ راست گھریلو آمدن اور غربت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
ورلڈ بینک کی کنٹری ہیڈ بولورما آمگابازر نے کہا“حالیہ سیلابوں نے انسانی نقصان اور معاشی نقصانات میں اضافہ کیا ہے، جس سے ترقی کے امکانات متاثر ہوئے ہیں اور مالیاتی استحکام کے لیے نئے چیلنجز پیدا ہوئے ہیں۔
بجٹ کے خطرات
رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے بجٹ اہداف — جیسے ترقی کی شرح، صوبائی بچتیں، اور خسارہ — حاصل ہونا مشکل ہے کیونکہ بجٹ انتہائی پرامید مفروضات پر مبنی ہے۔
وفاقی بجٹ میں 4.2 فیصد جی ڈی پی نمو کا ہدف رکھا گیا ہے جو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے تخمینوں سے کہیں زیادہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ صوبوں سے 45 فیصد زیادہ سرپلس حاصل کرنے کی امید ہے، مگر یہ ہدف سیلابوں اور کمزور ٹیکس وصولی کے باعث خطرے میں ہے۔
مزید کہا گیا کہ صوبوں کو زرعی آمدنی ٹیکس (زرعی انکم ٹیکس) کے نفاذ اور سروسز پر جی ایس ٹی کی وصولی بہتر بنانا ہوگی، لیکن اگر محصولات کم رہیں تو اخراجات محدود رکھنا مشکل ہوگا۔
مہنگائی اور بیرونی شعبہ
سیلاب سے خوراک کی فراہمی متاثر ہونے کے باعث افراطِ زر میں اضافہ متوقع ہے، جو موجودہ مالی سال میں 7.2 فیصد تک پہنچ سکتا ہے جو سرکاری ہدف سے قدرے زیادہ ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 0.3 فیصد جی ڈی پی رہنے کا امکان ہے، کیونکہ ترسیلاتِ زر اور کم تیل کی قیمتیں کچھ نقصان پورا کریں گی۔ تاہم، سیلاب کے بعد درآمدات میں اضافہ اور ترسیلات کا معمول پر آنا خسارہ بڑھا سکتا ہے۔
ورلڈ بینک نے زرِ مبادلہ کی منڈی میں شفافیت بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے، اور کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی مداخلت کم کی جائے تاکہ مارکیٹ کی اصل طلب و رسد کے مطابق شرحِ تبادلہ طے ہو۔
بینک کی ماہرِ تجارت اینا ٹووم نے کہا کہ پاکستان کی برآمدات عالمی تجارت کا صرف 0.1 فیصد ہیں، جبکہ بھارت کا حصہ 5 فیصد سے زیادہہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان کی 70 فیصد برآمدات یورپی یونین کے نئے ماحولیاتی اور تجارتی معیار کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔
مالی خسارہ اور قرض
رپورٹ کے مطابق، آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مالیاتی نظم و ضبط برقرار رہے گا، مگر سیلابی امداد اور بحالی کے اخراجات بڑھنے سے خسارہ 5.4 فیصد GDP تک رہنے کا امکان ہے۔
عوامی قرضہ 76 فیصد گی ڈی پی تک بلند رہنے کی توقع ہے، کیونکہ کثیرالجہتی قرضوں کی ادائیگی، یوروبانڈ کی میچورٹی، اور اندرونی قرضوں کی تجدید کے لیے بڑے مالیاتی وسائل درکار ہوں گے۔




