
(ڈان نیوز) پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیلاب متاثرین کی امداد کے طریقہ کار پر اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ ایک جانب پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے متاثرہ خاندانوں کے لیے 10 لاکھ روپے فی گھرانے کی امداد کا اعلان کیا اور پیپلز پارٹی پر “سیاست کرنے” کا الزام عائد کیا، جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے واضح کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کے ذریعے ہی شفاف اور بروقت ریلیف ممکن ہے
بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ سیلاب نے ملک کے زرعی شعبے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، جس سے قومی غذائی تحفظ بھی داؤ پر لگ سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا:
“وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر کلائمٹ ایمرجنسی اور ایگری کلچر ایمرجنسی نافذ کرے۔”
۔ انہوں نے سندھ حکومت کے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ بینظیر ہاری کارڈ کے ذریعے ایک سے 25 ایکڑ تک زمین رکھنے والے کسانوں کو براہِ راست مالی مدد دی جا رہی ہے، جبکہ کھاد پر سبسڈی بھی دی جائے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ:
“یہ صرف سندھ یا پنجاب کا مسئلہ نہیں، یہ قومی سانحہ ہے۔ وفاقی حکومت کو BISP کے ذریعے متاثرہ خاندانوں تک امداد پہنچانی چاہیے۔ اگر آج اقدامات نہ کیے گئے تو جنوبی پنجاب اور دیگر متاثرہ علاقوں کے کسانوں اور مزدوروں کا کیا قصور ہے؟”
انہوں نے وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شروع میں عالمی برادری سے فوری اپیل کرنی چاہیے تھی:
“اگر آپ 100 لوگوں کو سہارا دے سکتے تھے تو 200 کو بھی دیا جا سکتا تھا، لیکن بروقت عالمی مدد حاصل نہ کی گئی۔”
وزیر اعلی کا جوابی ردعمل:
ڈیرہ غازی خان میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پیپلز پارٹی پر الزام لگایا:
“سیلاب جیسے سانحے کو بھی سیاست کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اگر خدانخواستہ سندھ میں کوئی آفت آتی تو پنجاب ہر ممکن مدد کرتا۔”
انہوں نے BISP پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس پروگرام کے تحت صرف 10 ہزار روپے فی خاندان دیے جاتے ہیں، جو ناکافی ہیں:
“جن لوگوں کے گھر، فصلیں اور مویشی تباہ ہو گئے ہیں وہ 10 ہزار روپے سے کیا کریں گے؟ میں انہیں 10 لاکھ روپے دوں گی تاکہ وہ اپنے گھر دوبارہ بنا سکیں اور کھیتوں کی بحالی کر سکیں۔”
مریم نواز نے مزید کہا کہ وہ عالمی امداد کے بجائے اپنے وسائل پر انحصار کریں گی:
“میں نواز شریف کی بیٹی ہوں، دنیا سے بھیک مانگنے کے بجائے اپنے وسائل سے عوام کو سہارا دینا چاہتی ہوں۔”
سیلاب کے اثرات اور معاشی خطرات
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 48 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، جبکہ 15 سے 29 سال کے 23 فیصد نوجوان بیروزگار ہیں۔ سیلاب نے ان مسائل کو دوگنا کر دیا ہے۔ زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کپاس اور گندم کی فصل کی بحالی نہ ہوئی تو ملکی برآمدات پر براہِ راست اثر پڑے گا اور پاکستان کو 2 سے 3 ارب ڈالر کا اضافی درآمدی بوجھ اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
ماہرین کی آرا
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اتحادی حکومت کے اندر یہ اختلاف مستقبل میں وسائل کی تقسیم اور بجٹ سازی کے وقت مزید بڑھ سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) براہِ راست امداد دینا چاہتی ہے تاکہ عوامی اثر قائم ہو، جبکہ پیپلز پارٹی کا زور ادارہ جاتی طریقۂ کار پر ہے۔
ایک سینئر یورپی سفارتکار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ:
“پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ امداد کی تقسیم میں شفافیت ہے۔ اگر حکومت BISP کو نظرانداز کرے گی تو عالمی ادارے تعاون میں ہچکچاہٹ دکھا سکتے ہیں۔”
متاثرین کی حالت
جنوبی پنجاب کے ایک کساننے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوے کہا کہ:
“میرا مکان ڈوب گیا، کھیت میں بیج تک نہیں بچا۔ حکومت جو بھی دے گی وہ میرا سب کچھ بحال نہیں کر سکتا، لیکن اگر فوری امداد ملی تو کم از کم بچے کھچا زمین پر بیج ڈال سکوں گا۔”
اسی طرح سندھ سے تعلق رکھنے والی خاتون زرینہ بی بی نے کہا:
“BISP کے تحت پہلے بھی ہمیں پیسے ملتے تھے، اب بھی اگر یہی نظام ہو تو بہتر ہے۔ لوگ خود جا کر درخواست نہیں دے سکتے، وہ لائنوں میں لگنے کے قابل نہیں ہیں۔”
یہ اختلافات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب دونوں جماعتیں مرکز میں اتحادی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر امدادی حکمت عملی پر اختلاف برقرار رہا تو متاثرین کے مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں۔