
Malala turns her fight for equality to women in sports Photo: CNN
ملالہ کی کھیلوں کے ذریعے لڑکیوں کو خودمختار بنانے کی کوشش
نوبل انعام یافتہ اور تعلیمی کارکن ملالہ یوسف زئی نے ریسیس کے نام سے خواتین کے کھیلوں میں سرمایہ کاری کے ایک نئے عالمی منصوبے کا آغاز کیا ہے۔ ملالہ نے یہ منصوبہ لندن میں منعقدہ “بلی جین کنگ پاور آف ویمنز اسپورٹس سمٹ” کے موقع پر پیش کیا جس کا مقصد خواتین کے حقوق اور صنفی مساوات کو فروغ دینے کی ایک نئی جہت ہے۔
شاید یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہوں کہ ، ملالہ، جو دنیا بھر میں ایک باہمت آواز اور انسانی حقوق کی علمبردار کے طور پر پہچانی جاتی ہیں، کھیلوں کی بھی شوقین ہیں۔ انہوں نے گزشتہ چند برسوں کے دوران کرکٹ، فٹبال، باسکٹ بال، نیٹ بال، اولمپکس اور کامن ویلتھ گیمز جیسے متعدد ایونٹس میں شرکت کی، اور یہاں تک کہ ویلنٹائن ڈے کی ایک سرد شام بھی اپنے شوہر عصر ملک کے ساتھ ایک رگبی میچ دیکھنے میں گزاری۔
سی این این اسپورٹس کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں ملالہ نے بتایا کہ انہوں نے پاکستان میں اپنے بچپن میں ہی محسوس کیا کہ لڑکیوں کو کھیلوں میں شرکت کے مساوی مواقع حاصل نہیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے جب اسکول میں چھٹی کے وقت لڑکے کرکٹ کھیلنے چلے جاتے تھے ، تو لڑکیوں کو وہیں رکنا پڑتا تھا “اس وقت سے مجھے اندازہ ہےکہ کھیلوں میں لڑکیوں کی شرکت آسان نہیں”۔
ریسیس کا مقصد صرف پیشہ ورانہ کھیلوں میں سرمایہ کاری تک محدود نہیں، بلکہ دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو کھیلوں میں شامل کرنا بھی ہے۔ ملالہ اور ان کے شوہر عصر ملک اس منصوبے میں شراکت دار ہیں، جنہیں پاکستان میں کرکٹ فرنچائز قائم کرنے اور کرکٹ بورڈ کے ساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔
ملالہ کا کہنا ہے،
“ہم ایک ایسے موقع کی تلاش میں تھے جہاں ہم اپنی مہارت اور پلیٹ فارم کو خواتین کے کھیلوں کے فائدے کے لیے استعمال کر سکیں، کیونکہ اس شعبے میں سرمایہ کاری اور مواقعوں کی شدید کمی ہے۔
ریسیس کی مشاورت میں بلی جین کنگ اور ان کی اہلیہ الانا کلوس جیسے سرکردہ افراد شامل ہیں، جو خواتین کے کھیلوں کو کاروباری امکانات کے طور پر دیکھتے ہیں۔ملالہ اور عصر ملک خاص طور پر دو لیگز (نیشنل ویمنز ساکر لیگ) اور (ویمنز نیشنل باسکٹ بال ایسوسی ایشن ) میں سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ملالہ کے مطابق،
” ان لیگز میں سرمایہ کاری نہ صرف آگے بڑھنے کے بڑے مواقع فراہم کرتی ہے بلکہ یہ ہمیں یہ پرکھنے کا موقع بھی دیتی ہے کہ ہمارا مقصد اور اس سے جُڑی مالی حکمتِ عملی کس حد تک مؤثر ہے۔”
ملالہ نے اس بات پر زور دیا کہ کھیل صرف تفریح نہیں بلکہ معاشرتی مکالمے، امن اور صنفی مساوات کو فروغ دینے کا ایک طاقتور ذریعہ ہیں۔ انہوں نے کہا:
جب کھیل ختم ہوتا ہے،”ہم ایک دوسرے کو گلے لگا تےہیں، ہاتھ ملا تے ہیں، اور یہ تسلیم کر تے ہیں کہ ہم سب ایک جیسے (انسان) ہیں” ۔
ملالہ نے انڈیانا فیور کی باسکٹ بال اسٹار کیٹلن کلارک کی مثال دی، جنہوں نے اپنی کارکردگی سے خواتین کے کھیلوں میں ناظرین کی دلچسپی بڑھا دی۔
“ایسے کھلاڑی بغیر کچھ کہے بہت کچھ کہہ جاتے ہیں،” ملالہ نے کہا۔
“یہ لڑکیوں کے لیے ایک مضبوط پیغام ہے کہ آسمان ہی ان کی حد ہے۔”