اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) شام میں بشارالاسد کو معزول کرکے ملک کا اقتدار سنھبالنے والی نئی انتظامیہ کےخلاف اسرائیل نے پہلی بار حملے شروع کیے ہیں۔
شامی علاقے کے ایک طبی ذرائع کے مطابق بدھ کے روز جنوبی شام میں ایک اسرائیلی حملے میں ایک شہری سمیت تین افراد مارے گئے، جس میں پہلی بار ملک کے جنوب میں قنیطرہ صوبے میں نئی اتھارٹی کی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔
سیرین آبزرویٹری نے اطلاع دی ہے کہ “ایک اسرائیلی ڈرون نے جنوبی قنیطرہ کے دیہی علاقوں میں غدیر البستان قصبے میں ملٹری آپریشن ڈیپارٹمنٹ کے فوجی قافلے کو نشانہ بناتے ہوئے حملہ کیا،” جس کے نتیجے میں “ملٹری آپریشنز ڈیپارٹمنٹ کے دو ارکان” اور ایک عام شہری ہلاک ہو گئے۔
ایک طبی ذریعے نے اے ایف پی کو بتایا کہ مرنے والوں میں “ٹاون میئر” بھی شامل ہے۔
آبزرویٹری کے مطابق یہ حملہ “ملٹری آپریشنز ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اسلحے کی تلاش میں قصبے میں حفاظتی مہم چلانے کے موقع پر کیا گیا۔
آبزرویٹری کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمان نے کہا کہ “یہ پہلا اسرائیلی حملہ ہے جس میں نئی اتھارٹی کی سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا ہے”۔
حزب اختلاف کے دھڑوں کی جانب سے 8 دسمبر کو سابق صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد اسرائیل نے شام کی فوجی تنصیبات پر سینکڑوں فضائی حملے کیے ہیں۔
اسرائیل نے ان حملوں ں کا جواز یہ پیش کیا کہ ان تنصیبات کو دشمن کے ہاتھوں میں جانے کا خطرہ ہے۔
آٹھ دسمبر کو بشارالاسد کا تختہ الٹے جانے کےبعد اسرائیل نے سنہ 1967 میں شام کی گولان پہاڑیوں کے اس حصے کے مضافات میں غیر فوجی بفر زون میں اپنی فوج کی تعیناتی کا اعلان کیا۔
اقوام متحدہ نے بفر زون پر اسرائیلی فوج کے کنٹرول کو 1974 کے معاہدے کی “خلاف ورزی” قرار دیا تھا۔
14 دسمبر 2024 کو شام کی نئی انتظامیہ کے رہنما احمد الشرع نے ملک کے جنوب میں اسرائیلی فوج کی دراندازی کی مذمت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ صورتحال “کسی نئے تنازعے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی”۔
الشرع نے مخالف دھڑوں کے ٹیلی گرام چینلز کے ذریعہ اس دن نشر ہونے والے بیانات میں کہا کہ “اسرائیلیوں نے واضح طور پر شام کی حدود کو عبور کر لیا ہے، جس سے خطے میں بلا جواز کشیدگی کا خطرہ ہے”۔