بھارتی دفاعی منصوبہ بندی کو دھچکا،تاجکستان نے آئنی ایئربیس بھارت سے خالی کروالیا

بھارتی دفاعی منصوبہ بندی کو دھچکا،تاجکستان نے آئنی ایئربیس بھارت سے خالی کروا لیا
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) دی پرنٹ کی خبر کے مطابق تاجکستان نے بظاہر روس اور چین کے دباؤ کے باعث غیر علاقائی فوجی اہلکاروں کی موجودگی پر لیز کی تجدید سے انکار کر دیا۔بھارت اب تاجکستان کے اسٹریٹیجک لحاظ سے نہایت اہم “آئنی ایئربیس” پر کام نہیں کر رہا،وہی ایئربیس جسے بھارت نے 2002 میں تعمیر اور چلانے میں مدد دی تھی۔ اگرچہ اس کی بندش کی خبریں منگل کے روز سامنے آئیں، لیکن ذرائع کے مطابق یہ عمل 2022 ہی میں مکمل ہو گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق بھارت تاجکستان کے ساتھ ایک لیز کے معاہدے کے تحت اس ایئربیس کو چلا رہا تھا۔ 2021 میں تاجک حکومت نے بھارت کو اطلاع دی کہ لیز میں توسیع نہیں کی جائے گی لہٰذا بھارت کو وہاں تعینات عملہ اور ساز و سامان واپس بلانا ہوگا۔
بھارتی عملہ اور آلات کی واپسی 2022 میں ہی مکمل کر لی گئی تھی، تاہم اس پیشرفت کو اب تک خفیہ رکھا گیا۔
ذرائع کے مطابق تاجکستان نے لیز کی تجدید سے انکار روس اور چین کے دباؤ کے باعث کیا، جو ملک غیر علاقائی فوجی اہلکاروں کی اپنی سرزمین پر موجودگی کے مخالف ہیں۔
اگرچہ بھارت کے پاس وہاں مستقل فضائی اثاثے نہیں تھے، لیکن تاجکستان کو تحفے میں دیے گئے دو سے تین بھارتی فوجی ہیلی کاپٹرز (جو بھارتی فضائیہ کے اہلکاروں کے ذریعے آپریٹ ہوتے تھے) وہاں تعینات تھے تاکہ قدرتی آفات اور انسانی امداد کے کاموں میں استعمال ہو سکیں۔ ایک وقت میں کچھ Su-30MKI طیارے بھی وہاں مختصر مدت کے لیے تعینات رہے۔
پس منظر
جی ایم اے (گِسّار ملٹری ایئروڈروم)، جو مقامی گاؤں آئنی کے نام پر “آئنی ایئربیس” کے طور پر معروف ہے، تاجک دارالحکومت دوشنبے کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ بیس بھارت اور تاجکستان کے اشتراک سے تقریباً دو دہائیوں تک چلایا گیا۔
موجودہ نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر (این ایس اے) اجیت ڈوول اور سابق ایئرچیف مارشل بی۔ ایس۔ دھنوا نے اس بیس کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا، جس کی فنڈنگ بھارتی وزارتِ خارجہ نے کی تھی۔
جی ایم اے کو بعض اوقات ایک اور ایئربیس “فرخور” سے الجھا دیا جاتا ہے، جو تاجکستان کے جنوبی علاقے میں افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ بھارت نے 1990 کی دہائی میں فرخور میں ایک اسپتال بھی چلایا تھا۔
2001-2002 میں وزارتِ خارجہ اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے چند “انقلابی سوچ رکھنے والے” افسران نے پرانے اور تباہ حال گِسّار ایئربیس کو ازسرِ نو تعمیر کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبے کی بھرپور حمایت اُس وقت کے وزیرِ دفاع، مرحوم جارج فرنینڈس نے کی۔
این ایس اے اجیت ڈوول نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ بھارتی فضائیہ نے اُس وقت کے گروپ کیپٹن نسیم اختر (ریٹائرڈ) کو ایئربیس کا پہلا پراجیکٹ ڈائریکٹر مقرر کیا۔ ان کے بعد ایک اور افسر نے ذمہ داری سنبھالی، جس کے دور میں نجی ٹھیکیدار کے ساتھ قانونی تنازع بھی پیدا ہوا۔
بھارتی حکومت نے بارڈر روڈز آرگنائزیشن (BRO) کی ٹیم کو بھی منصوبے میں شامل کیا جس کی قیادت ایک بریگیڈیئر کر رہا تھا۔ اُس وقت تقریباً 200 بھارتی ماہرین تعمیراتی کام میں مصروف تھے اور گِسّار ایئربیس کی رن وے کو 3,200 میٹر تک بڑھایا گیا — تاکہ زیادہ تر طیارے وہاں اتر اور اڑان بھر سکیں۔
اس کے علاوہ، بھارتی ٹیم نے ہینگرز، طیاروں کی مرمت اور ایندھن بھروانے کی سہولیات بھی قائم کیں۔ اندازہ ہے کہ بھارت نے جی ایم اے کی ترقی پر تقریباً 10 کروڑ امریکی ڈالر خرچ کیے۔
ایئر چیف مارشل بی۔ ایس۔ دھنوا کو 2005 کے آخر میں جب وہ گروپ کیپٹن تھے، جی ایم اے کے “عملی” کمانڈر کے طور پر تعینات کیا گیا۔
تاہم، نریندر مودی حکومت کے دور میں پہلی مرتبہ بھارتی فضائیہ نے اپنے جنگی طیاروں Su-30MKI کو بین الاقوامی مشن کے لیے جی ایم اے میں عارضی طور پر تعینات کیا۔
اسٹریٹیجک اہمیت
آئنی ایئربیس نے بھارت کو پاکستان کے خلاف نمایاں اسٹریٹیجک برتری دی تھی۔تاجکستان کی سرحدیں چین اور پاکستان دونوں سے ملتی ہیں اور یہ افغانستان کے واخان کاریڈور کے ساتھ جڑا ہوا ہے — وہ تنگ پٹی جو پاکستان کے زیرِ قبضہ کشمیر (PoK) اور چین سے متصل ہے۔
تاجکستان سے صرف 20 کلومیٹر کے فاصلے پر PoK واقع ہے، اس لیے وہاں سے آپریشن کرنے کی صلاحیت بھارت کے فوجی منصوبہ سازوں کے لیے ایک قیمتی اثاثہ تھی۔بھارتی فضائیہ کے طیارے تاجکستان سے پشاور تک ہدف بنا سکتے ہیں — جس سے پاکستان کے وسائل پر اضافی دباؤ پڑتا ہے۔
جنگ کی صورت میں، پاکستان کو اپنے مشرقی محاذ سے کچھ فوجی وسائل مغربی سرحد پر منتقل کرنا پڑتے، جس سے اس کا براہِ راست محاذ بھارت کے خلاف کمزور ہو جاتا۔آئنی ایئربیس کی ایک اور بڑی اسٹریٹیجک افادیت یہ تھی کہ اس کے ذریعے بھارت کو افغانستان تک رسائی کے متبادل راستے مل گئے تھے — پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے۔
تاہم، دفاعی اور سیکیورٹی حلقوں کے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کبھی بھی جی ایم اے یا اس پر کی گئی سرمایہ کاری سے مکمل فائدہ نہیں اٹھا سکا۔



