
بھارت: افغان وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس،خواتین صحافیوں کی شرکت پر پابندی،صحافیوں میں غصہ
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کی نئی دہلی میں جمعہ کو ہونے والی پریس کانفرنس نے اس وقت صحافتی حلقوں میں غصہ پیدا کر دیا جب اس میں خواتین صحافیوں کو شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔
کانگریس کی رکن پارلیمنٹ پریانکا گاندھی وادرا نے اس واقعے کو بھارت کی سب سے قابل خواتین کی توہین قرار دیا۔ کئی صحافیوں نے سوشل میڈیا پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور اس اقدام پر شدید تنقید کی۔
ہفتہ کو بھارتی وزارت خارجہ نے وضاحت کی کہ ان کا کسی قسم کا تعلق نئی دہلی میں دورہ کرنے والے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی پریس کانفرنس سے نہیں تھا۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان مطقی کی نئی دہلی میں پریس کانفرنس پر خواتین کو شرکت کی اجازت نہ دینے کے اقدام پر کئی صحافیوں نے سوشل میڈیا پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔
متقی طالبان حکومت کا حصہ ہیں جو خواتین پر سخت پابندیاں عائد کرتی ہے اور انہیں عملی طور پر کام کرنے سے روکتی ہے۔ طالبان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کے محفوظ ٹھکانے کی ممکنہ موجودگی کی وجہ سے بھارت نے اس گروپ کے ساتھ تعلقات میں احتیاط برتی ہے۔
متقی نے جمعرات کو بھارت کا دورہ کیا اور جمعہ کو وزیر خارجہ جے شنکر سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کو تعلقات کے نئے سرے سے ازسرِ نو آغاز کے طور پر دیکھا گیا۔ جس میں بھارت نے کابل میں اپنی تکنیکی مشن کی سطح کو ایمبیسی تک اپ گریڈ کرنے کا اعلان کیا جسے افغان وزیر خارجہ نے خوش آئند قرار دیا۔
تاہم اسی دن دوپہر کو افغان سفارتخانے میں ہونے والی متقی کی پریس کانفرنس میں خواتین کو شرکت سے روکا گیا۔این ڈی ٹی وی نے اس معاملے پر سفارتخانے کے سکیورٹی اہلکاروں سے بات کی، لیکن وہ نہیں مانے۔
کئی صحافیوں نے سوشل میڈیا پر غصہ ظاہر کیا اور بتایا کہ تمام خواتین رپورٹرز نے لباس کے قواعد کی پابندی کی تھی۔ کئی صارفین نے اس اقدام پر سوالات بھی اٹھائے۔
افغان وزارت خارجہ کے پبلک کمیونیکیشنز کے ڈائریکٹر حافظ ضیا احمد کی جانب سے ایکس پر پوسٹ کی گئی پریس کانفرنس کی تصویر سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی خاتون صحافی وہاں موجود نہیں تھی۔
انڈیا کی اپوزیشن جماعتوں کے رہنما بھی خواتین صحافیوں کی عدم موجودگی پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔
کانگریس کے رُکن پارلیمنٹ اور سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم کے بیٹے کارتی چدمبرم نے انسٹا گرام پر لکھا کہ ’میں ان جغرافیائی سیاسی مجبوریوں کو سمجھتا ہوں جو ہمیں طالبان کے ساتھ منسلک ہونے پر مجبور کر رہی ہیں، لیکن ان کے امتیازی اور قدیم رسم و رواج کو قبول کرنا مکمل طور پر مضحکہ خیز ہے۔
کارتی چدمبرم نے اپنی پوسٹ میں انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کو بھی ٹیگ کیا ہے۔
ترنمول کانگریس کی رکن اسمبلی مہوا موئترا نے انسٹاگرام پر لکھا ’ہماری حکومت کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ طالبان کے وزیر خارجہ امیر متقی کو خواتین صحافیوں کو نیوز کانفرنس سے باہر کرنے کی اجازت دے؟ پورے پروٹوکول کے ساتھ ہندوستانی سرزمین پر ایسا کیسے ہونے دیا جا سکتا ہے؟ جے شنکر اس سے کیسے اتفاق کر سکتے ہیں؟‘
کئی خواتین صحافیوں نے اسے ’ناقابل قبول‘ قرار دیا اور کہا کہ پریس کانفرنس میں صنفی امتیاز جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔
کچھ لوگوں نے سوال کیا کہ اگر طالبان، انڈیا آنے کے بعد بھی خواتین کو نظر انداز کر سکتے ہیں تو اس سے افغانستان میں خواتین کی حالت کے بارے میں ان کی سوچ مزید واضح ہوتی ہے۔
خارجہ امور کی کوریج کرنے والی صحافی سمیتا شرما نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ متقی کی پریس کانفرنس میں کسی خاتون صحافی کو مدعو نہیں کیا گیا۔اُن کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ جے شنکر اور متقی کے درمیان بات چیت کے بعد ابتدائی بیان میں افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کی حالت زار کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان میں طالبان کی حکومت پر پہلے بھی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیوں کا الزام لگایا جاتا رہا ہے جسے طالبان غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔