
آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس 8 دسمبر کو، پاکستان کیلئے 1.2 ارب ڈالر کی قسط منظور کیے جانے کا امکان
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا ایگزیکٹو بورڈ 8 دسمبر (پیر) کو پاکستان کے لیے 1.2 ارب ڈالر کی قرض کی رقم کی منظوری کے لیے اجلاس کرے گا۔
آئی ایم ایف نے ستمبر 24 سے اکتوبر 8 تک کراچی، اسلام آباد اور واشنگٹن میں ہونے والے طویل مذاکرات کے بعد اکتوبر میں پاکستان کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ کیا تھا۔
تاہم، فنڈز کے اجرا سے پہلے اس معاہدے کی ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری لازمی ہے۔
اگر منظوری مل گئی تو یہ پاکستان کے لیے تقریباً 1.2 ارب ڈالر کی نئی فنانسنگ کھول دے گا جن میں تقریباً 1 ارب ڈالر ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی کے تحت، جبکہ مزید 20 کروڑ ڈالر ریذیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فسیلٹی کے تحت ہوں گے۔
آئی ایم ایف نے جمعے کو جاری ایک مختصر اعلان میں اجلاس کی تاریخ کی تصدیق کی۔ فنڈ کی آفیشل ویب سائٹ پر جاری کیلنڈر میں بھی پاکستان کے قرض پروگراموں کا ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں جائزہ لینے کا شیڈول شامل ہے۔
اسلام آباد اور قرض دینے والے ادارے کے درمیان مذاکرات، جن کی قیادت آئی ایم ایف مشن چیف ایوا پیٹرووا کر رہی تھیں، پاکستان کی مالی کارکردگی، مانیٹری پالیسی، ساختی اصلاحات اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق وعدوں پر پیش رفت کے گرد گھومتے رہے۔
اپنی گزشتہ جائزہ رپورٹ میں، آئی ایم ایف نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان نے مالیاتی استحکام، مہنگائی میں کمی اور بیرونی ذخائر کو مضبوط بنانے میں ’’بڑی پیش رفت‘‘ کی ہے۔ فنڈ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سخت مانیٹری پالیسی کو بھی سراہا، جس نے مہنگائی کی توقعات کو مستحکم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ساختی اصلاحات — خصوصاً سرکاری اداروں کی تنظیم نو، توانائی کے شعبے کی پائیداری، مسابقت اور سرکاری خدمات کی فراہمی میں بہتری کو ایسے شعبے قرار دیا گیا جہاں پاکستانی حکام نے اپنی سنجیدگی برقرار رکھی ہے۔
فنڈ نے آر ایس ایف کے تحت موسمیاتی ایجنڈے میں پیش رفت کو بھی سراہا، جن میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت بڑھانے، پانی کے وسائل کے انتظام کو مضبوط بنانے اور موسمیاتی معلومات کے نظام کو بہتر کرنا شامل ہیں۔
حال ہی میں آنے والے تباہ کن سیلاب، جنہوں نے زراعت، انفراسٹرکچر اور روزگار کو شدید نقصان پہنچایا، ان اصلاحات کی اہمیت کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔
ان جائزوں کی منظوری سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہونے کی توقع ہے، ایک ایسے نازک وقت پر جب پاکستان بیرونی دباؤ اور سیلابی نقصانات کے اثرات میں اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اسلام آباد پر مالی نظم و ضبط برقرار رکھنے، توانائی شعبے میں اصلاحات تیز کرنے اور ریونیو بڑھانے کے اقدامات جاری رکھنے کا دباؤ ہے تاکہ طویل مدتی معاشی استحکام یقینی بنایا جا سکے۔
تاہم، آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ خطرات اب بھی بلند ہیں۔ سیلابی نقصانات نے معاشی منظرنامے کو کمزور کیا ہے، اور فنڈ نے زور دیا ہے کہ مہنگائی کو اسٹیٹ بینک کے ہدف میں رکھنے کے لیے مانیٹری پالیسی ’’مناسب طور پر سخت اور ڈیٹا پر مبنی‘‘ ہونی چاہیے۔
فنڈ نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ مسابقت بڑھانے، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے، سرکاری خدمات میں بہتری اور توانائی شعبے کی مستقل کمزوریوں کو کم کرنے کے لیے اصلاحات کا تسلسل ضروری ہے۔
اگر 8 دسمبر کو ایگزیکٹو بورڈ نے منظوری دے دی تو پاکستان کو ایک روز بعد ہی یہ رقم ملنے کا امکان ہے۔
اسلام آباد کے حکام امید رکھتے ہیں کہ یہ مالیاتی معاونت بیرونی ذخائر کو مضبوط کرے گی، معاشی بحالی کو سہارا دے گی اور حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے پر عالمی اعتماد کا اظہار ہو گی۔
میٹنگ سے قبل جاری اہم رپورٹ
اجلاس سے قبل، آئی ایم ایف نے اپنی طویل-منتظر گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسسمنٹ رپورٹ جاری کی، جس میں پاکستان کے ریاستی اداروں میں موجود نظامی کمزوریوں کے باعث بدعنوانی کے مستقل چیلنجز کو اجاگر کیا گیا ہے، اور شفافیت، انصاف اور دیانت داری بہتر بنانے کے لیے 15 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا فوری طور پر شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ رپورٹ جس کی اشاعت قرض پروگرام کی منظوری کے لیے لازمی شرط تھی — نے اندازہ لگایا ہے کہ اگر پاکستان اگلے تین سے چھ ماہ میں گورننس اصلاحات کے پیکج پر عملدرآمد شروع کر دے تو وہ آئندہ پانچ سالوں میں اپنی اقتصادی شرح نمو میں تقریباً 5 سے 6.5 فیصد اضافہ کر سکتا ہے۔
رپورٹ نے حکومت پر شدید تنقید کو جنم دیا، اور اپوزیشن جماعتوں نے اسے ’’پاکستان کی تاریخ کا بدترین مالیاتی اسکینڈل‘‘ قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
تاہم، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے گزشتہ ہفتے کہا کہ یہ رپورٹ ’’تنقید نہیں‘‘ بلکہ ’’طویل عرصے سے زیر التوا اصلاحات کو تیز کرنے کا محرک‘‘ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ نے ٹیکس، گورننس سمیت مختلف شعبوں میں ہونے والی ’’نمایاں پیش رفت‘‘ کو تسلیم کیا ہے، اور اس کی کئی ترجیحی سفارشات پر ’’پہلے ہی کام جاری ہے‘‘۔
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان اپنی معاشی بحالی کے لیے ضروری وسیع تر ادارہ جاتی اصلاحات کے حصے کے طور پر بقیہ سفارشات پر بھی عملدرآمد کرنے کے لیے پرعزم ہے۔



