
کراچی اور دیگر شہروں میں شدید بارشوں اور سیلاب سے صنعتی و تجارتی شعبہ مفلوج
کراچی، اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد (اردو انٹرنیشنل) بدھ کے روز ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والی شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال نے نہ صرف شہری زندگی کو بری طرح متاثر کیا بلکہ صنعتی اور تجارتی شعبے بھی مفلوج ہو گئے۔ کراچی میں اہم صنعتی علاقے پانی میں ڈوب گئے اور مزدور کام پر نہیں پہنچ سکے، جس کے نتیجے میں پیداوار میں شدید کمی واقع ہوئی۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق نارتھ کراچی اور کورنگی کے صنعتی علاقوں میں تقریباً 4 ہزار صنعتی اکائیوں میں سے نصف کے قریب بند رہیں۔ نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (این کے اے ٹی آئی) کے صدر فیصل معیز خان نے بتایا کہ اگست میں طوفانی بارشوں کے بعد مزدور واپسی سے ہچکچا رہے ہیں، کیونکہ کئی افراد رات دیر تک فیکٹریوں میں پھنسے رہے تھے۔
فیصل معیز خان نے مزید کہا کہ ایف بی ایریا کے سیکٹر اے سے ڈی تک تقریباً 100 سے 125 فیکٹریاں پانی میں ڈوب گئی ہیں جس کے نتیجے میں کروڑوں روپے مالیت کا خام مال اور تیار سامان تباہ ہو گیا۔ تھڈو ڈیم سے آنے والے پانی نے سپر ہائی وے جانے والے راستے بھی ڈبو دیے، جس نے پہلے سے کمزور شہری انفرااسٹرکچر کو مزید نقصان پہنچایا۔
کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر جنید نقی نے بتایا کہ صبح کے وقت داخلی راستے بند ہونے کے باعث مزدور کافی دیر تک فیکٹریوں تک نہیں پہنچ سکے، جبکہ فیڈر لائنوں کی ٹرپنگ کے سبب بجلی کی بندش نے صورتحال مزید خراب کر دی۔ صنعتی زونز میں پیداوار میں 25 سے 30 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، جبکہ سپلائی چین بھی شدید متاثر ہوئی۔
ای کامرس شعبہ بری طرح متاثر
پاکستان ای کامرس ایسوسی ایشن کراچی کے صدر شعیب بھٹی نے بتایا کہ لاجسٹک رکاوٹوں اور طویل دورانیے کی بجلی و انٹرنیٹ کی بندش کے باعث مقامی اور بین الاقوامی سطح پر شپمنٹس میں تاخیر ہوئی اور شہر میں کوئیک کامرس سروسز معطل رہیں۔
تجارت کے شعبے کو بھی شدید نقصان
کراچی ہول سیلرز گروسری ایسوسی ایشن (کے ڈبلیو جی اے) کے چیئرمین رؤف ابراہیم کے مطابق ڈینڈیا بازار، جوڑیا بازار اور لی مارکیٹ سمیت بڑے تھوک تجارتی مراکز کی 80 سے 90 فیصد دکانیں بند رہیں۔
شدید بارشوں سے شہری ودیہی زندگی شدید متاثر
کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں جیسے لاہور، فیصل آباد، ملتان، حیدرآباد اور سکھر میں بھی شدید بارشیں اور ندی نالوں کے اوور فلو نے شہری زندگی کو متاثر کیا۔ ندی نالوں میں پانی کی سطح بلند ہونے سے کئی علاقوں میں گھروں اور سڑکوں میں پانی داخل ہو گیا، جس کے باعث رہائشیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
محکمہ موسمیات نے خبردارکردیا
محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں مزید بارشیں متوقع ہیں، جس کے پیش نظر شہریوں اور صنعتی اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ احتیاطی اقدامات کریں۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ماہرین کے مطابق ناقص انفرااسٹرکچر، ناکافی نکاسی کے نظام اور صنعتی علاقوں میں غیر منظم ترقی نے موجودہ صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ انہوں نے حکومت اور متعلقہ اداروں سے اپیل کی کہ فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے اور اقتصادی سرگرمیوں کو جلد از جلد بحال کیا جائے۔
کراچی سمیت ملک کے بڑے شہروں میں بارش اور سیلاب کے باعث صنعتی، تجارتی اور عوامی زندگی مفلوج ہوئی ہے۔ اگر حکومت اور متعلقہ ادارے فوری اقدامات نہ کریں تو اس کے طویل المدتی اقتصادی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں 2025 کے سیلاب کا ایک جائزہ
بارشوں کا آغاز اور شدت
جون 2025 میں شروع ہونے والی مون سون بارشوں نے جولائی اور اگست میں شدت اختیار کی، جس کے نتیجے میں ملک کے مختلف حصوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوئی۔ خصوصاً پنجاب، خیبر پختونخواہ اور سندھ کے علاقے شدید متاثر ہوئے۔
انسانی نقصانات
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق سیلاب اور بارشوں کے باعث ملک بھر میں 900 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ 1,044 افراد زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ، 9,166 گھروں کو نقصان پہنچا اور 6,180 مویشی ہلاک ہوئے۔
زراعت پر اثرات
رائٹرز لکھتا ہے کہ پنجاب کے 2,000 سے زائد دیہات سیلاب کی زد میں آئے، جہاں لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی زیر آب آ گئی۔ چاول، گنا، مکئی اور کپاس جیسے اہم فصلوں کی تباہی سے نہ صرف غذائی تحفظ متاثر ہوا بلکہ برآمدات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔
انفرااسٹرکچر کی تباہی
سیلاب نے سڑکوں، پلوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ، بجلی اور مواصلاتی نظام بھی متاثر ہوئے، جس سے امدادی کارروائیوں میں مشکلات پیش آئیں۔
امدادی کارروائیاں
حکومت اور فوج نے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں شروع کیں، جن میں 100 سے زائد کشتیوں اور ہیلی کاپٹروں کا استعمال شامل تھا۔ تاہم، امدادی سامان کی کمی اور مواصلاتی مسائل نے امداد کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2025 کے سیلاب نے ایک بار پھر قدرتی آفات کے سنگین اثرات کو اجاگر کیا ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ مستقبل میں ایسی آفات سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمت عملی تیار کریں اور انفرااسٹرکچر کی مضبوطی پر توجہ دیں تاکہ انسانی جانوں اور معیشت کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے۔