
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) — قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حالیہ عرب اسلامی سربراہ اجلاس میں مصر کی جانب سے پیش کی گئی نیٹو طرز کی عرب دفاعی فورس کی تجویز کو خلیجی ریاستوں خصوصاً قطر اور متحدہ عرب امارات نے مسترد کر دیا۔ یہ انکشاف مصر کے اعلیٰ سفارتی ذرائع نے Middle East Eye سے گفتگو میں کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق مصری صدر عبدالفتاح السیسی دوحہ سے “شدید مایوسی” کے عالم میں روانہ ہوئے جب خلیجی ممالک نے ان کی اس تجویز کو رد کر دیا جس کا مقصد خطے کو اسرائیلی خطرات سے تحفظ دینا تھا۔
تجویز کیا تھی؟
مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعتی نے اجلاس میں 1950 کے مشترکہ دفاعی و اقتصادی تعاون کے معاہدے کے تحت ایک دفاعی اتحاد کی تجویز دی، جس کا مقصد عرب ریاستوں کو کسی بھی بیرونی جارحیت — بالخصوص اسرائیل — سے بچانے کے لیے فوری ردعمل دینے والی فوجی قوت تشکیل دینا تھا۔
تاہم قطر اور یو اے ای نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ ذرائع کے مطابق اصل اختلاف قیادت پر تھا — سعودی عرب اتحاد کی قیادت کرنا چاہتا تھا، جب کہ مصر نے اپنے عسکری تجربے کی بنیاد پر قیادت کا دعویٰ کیا۔
سعودی-پاکستان دفاعی معاہدے کا اثر
اجلاس کے صرف چند روز بعد سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ ایک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت پاکستان نے عندیہ دیا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ اپنا جوہری تحفظ سعودی عرب کو بھی فراہم کر سکتا ہے۔ یہ پیش رفت خلیج میں بڑھتے اسرائیلی خطرات کے تناظر میں دیکھی جا رہی ہے۔
ایران اور ترکی کو بھی شامل نہ کرنے کا فیصلہ
ذرائع کے مطابق خلیجی ممالک نے ایران اور ترکی کو بھی ممکنہ عرب دفاعی فورس کا حصہ بنانے سے انکار کر دیا۔ بالآخر، خلیجی ریاستوں نے اس معاملے کو اپنی خلیجی دفاعی کونسل تک محدود رکھنے کا فیصلہ کیا۔
امریکی دباؤ اور اسرائیل پر خاموشی
اجلاس میں امریکی اثر و رسوخ بھی نمایاں رہا۔ ایک مصری سفارتکار نے بتایا کہ قطر کا ایک وفد واشنگٹن سے ایسی ہدایات کے ساتھ واپس آیا تھا کہ اجلاس میں اسرائیل کے خلاف کوئی عملی اقدام نہ اٹھایا جائے۔
امریکی وعدے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو آئندہ خلیجی ممالک پر حملے سے روکنے کی کوشش کریں گے، اور متحدہ عرب امارات نے اس امریکی مؤقف کی پرزور حمایت کی۔
مصری تنہائی اور تحفظات
اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ اگرچہ دوحہ میں اسرائیلی حملے کی مذمت پر مشتمل تھا، مگر اس میں کسی ٹھوس اقدام کا ذکر نہیں تھا۔ مصر کو اس صورتحال میں خود کو عرب دنیا میں تنہا محسوس ہوا۔
ذرائع کے مطابق مصر نے اجلاس سے توقع کی تھی کہ وہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف مضبوط موقف اختیار کرے گا، خاص طور پر غزہ میں نسل کشی اور فلسطینیوں کو شمالی سینا میں منتقل کرنے کے منصوبے کے خلاف۔
مصری فوجی تیاری اور اسرائیل کو “دشمن” قرار دینا
صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صدر عبدالفتاح السیسی نے پہلی بار اسرائیل کو “دشمن” قرار دیا — یہ ان کی صدارت کے دوران اپنی نوعیت کا پہلا بیان ہے، جو قاہرہ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے احساس کو ظاہر کرتا ہے۔
مصر نے حال ہی میں شمالی سینا میں 40,000 فوجی تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ فلسطینیوں کی ممکنہ نقل مکانی اور اسرائیل کے توسیع پسند عزائم کا راستہ روکا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ، قاہرہ نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ حماس قیادت کو مصری سرزمین پر نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
تاریخی تناظر
1950 میں قاہرہ میں دستخط کردہ عرب مشترکہ دفاعی معاہدہ، عرب ممالک کو اجتماعی دفاعی نظام میں باندھنے کی کوشش تھی، مگر علاقائی رقابتوں، قیادت کے جھگڑوں اور بیرونی انحصار نے اس معاہدے کو کمزور کر دیا۔
مصر نے 2015 میں شرم الشیخ میں ایک بار پھر متحدہ عرب فوج بنانے کی تجویز دی تھی، جو ابتدا میں سراہا گیا، مگر قیادت اور فنڈنگ پر اختلافات کی وجہ سے یہ بھی عملی شکل نہ اختیار کر سکا۔
یہ رپورٹ Middle East Eye کی شائع شدہ تفصیلی خبر اور اس میں شامل مصری سفارت کاروں کے بیانات کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔
اردو انٹرنیشنل کی ٹیم نے ترجمہ، تناظر اور پس منظر کی وضاحت میں اپنی صحافتی مہارت شامل کی ہے، تاہم اصل خبر اور تجزیہ کا ماخذ Middle East Eye ہے، جس کا مکمل حوالہ دیا جا رہا ہے۔
اصل خبر یہاں دستیاب ہے:
Middle East Eye – Exclusive: Egypt’s Nato-style Arab defence force proposal rejected at Doha summit