
خشک موسم نے بھارت کی چائے کی برآمدات اور عالمی سپلائی کو خطرے میں ڈال دیا
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) عالمی خبر رساں ادارے “الجزیرہ “ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی چائے کی صنعت موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدید دباؤ کا شکار ہے، جس سے نہ صرف ملک کی برآمدات گھٹ رہی ہیں بلکہ عالمی سپلائی اور قیمتوں پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔
بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں چائے کے باغات خشک موسم اور غیر متوقع بارشوں سے متاثر ہو رہے ہیں۔ شدید گرمی میں کام کرنے والی خواتین کارکنان کے لیے پتے توڑنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔
چائے کی تحقیق کی ایسوسی ایشن کی سائنس دان روپانجلی دیب باروا نے کہا ہے کہ درجہ حرارت اور بارش کے انداز میں تبدیلی اب کوئی عارضی انحراف نہیں بلکہ ایک نیا معمول بن چکا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بارش میں کمی اور درجہ حرارت میں اضافہ نہ صرف پیداوار کو محدود کر رہا ہے بلکہ پودوں کو زیادہ حساس اور کمزور بنا رہا ہے۔ 1921 سے 2024 کے درمیان آسام میں بارش 250 ملی میٹر کم ہو گئی جبکہ درجہ حرارت میں 1.2 ڈگری سیلسیس اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
سینئر چائے کے کاشتکار پربھات بیزبروآ کے مطابق مون سون کی بارش میں 38 فیصد کمی سے پیداوار کا سیزن مختصر ہو گیا ہے۔
بدلتے موسم نے باغات میں کیڑوں کی افزائش کو بڑھا دیا ہے جس سے پتیاں بد رنگ اور متاثر ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ آبپاشی کے اخراجات میں اضافہ اور کھاد و اجرت کی بلند قیمتوں نے پیداوار مہنگی کر دی ہے۔
بھارت جو دنیا کا دوسرا بڑا چائے پیدا کرنے والا ملک ہے، گزشتہ سال عالمی تجارت میں 12 فیصد حصہ رکھتا تھا لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو کھپت کے بڑھنے سے برآمدات مزید سکڑ سکتی ہیں۔ گزشتہ دہائی میں ملک میں چائے کی کھپت 23 فیصد بڑھ کر 12 لاکھ ٹن ہو گئی، جبکہ پیداوار میں صرف 6.3 فیصد اضافہ ہوا۔
عالمی منڈی میں پہلے ہی کینیا اور سری لنکا جیسے بڑے پیداواری ممالک بھی موسمیاتی مسائل سے دوچار ہیں جس سے عالمی سطح پر چائے کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
بھارت میں اعلیٰ معیار کی چائے کی برآمدات میں کمی کے ساتھ درآمدات تقریباً دوگنی ہو کر 2024 میں 45,300 ٹن تک پہنچ گئی ہیں جس سے غیر ملکی خریداروں کے لیے اخراجات مزید بڑھ گئے ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے دوبارہ پودے لگانے اور جدید کاشتکاری کے لیے مراعات نہ دیں تو بھارت کی دو صدی پرانی چائے کی صنعت عالمی منڈی میں اپنا مقام کھو سکتی ہے۔





