
سفارتی پسپائی یا سیاسی ڈر؟ مودی نے ٹرمپ سے ملاقات مؤخر کر دی
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اس ہفتے ملائیشیا میں ہونے والے آسیان رہنماؤں کے سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کر کے سفارتی اور سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
ذرائع کے مطابق مودی کی غیر حاضری کا بنیادی سبب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ممکنہ ملاقات اور پاکستان سے متعلق کسی ناخوشگوار گفتگو کا خدشہ تھا — ایک ایسا موضوع جس نے بھارت کی سفارتی ٹیم کو کئی دنوں تک پریشانی میں مبتلا رکھا۔
بلومبرگ کے مطابق بھارتی وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ حکام اس بات سے فکر مند تھے کہ صدر ٹرمپ دوبارہ یہ دعویٰ دہرا سکتے ہیں کہ انہوں نے مئی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان مسلح جھڑپوں کے بعد جنگ بندی میں کردار ادا کیا تھا۔بھارت نے ہمیشہ یہ دعویٰ مسترد کیا ہے، تاہم ٹرمپ کے غیر متوقع اندازِ گفتگو کے باعث نئی دہلی کسی بھی “غیر منصوبہ بند” منظر سے گریزاں رہی۔
ایک سینئر بھارتی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا وزیراعظم مودی نہیں چاہتے تھے کہ کسی ایسی صورتحال میں پھنس جائیں جس سے پاکستان کا معاملہ عالمی سطح پر پھر سے اٹھ جائے ٹرمپ کی زبان پر قابو پانا مشکل ہے اور کسی ایک جملے سے بھارتی میڈیا میں طوفان کھڑا ہو سکتا تھا۔
نئی دہلی میں بے چینی
صدر ٹرمپ نے حال ہی میں ٹوکیو میں ایک تقریب کے دوران ایک بار پھر کہا کہ میں نے وزیراعظم مودی اور پاکستان کے فیلڈ مارشل سے کہا کہ اگر تم لوگ لڑائی کرو گے تو ہم کوئی تجارتی معاہدہ نہیں کریں گے۔ٹرمپ نے مزید کہا کہ میں نے دونوں کو بتایا کہ تجارت اور امن ایک دوسرے سے جڑے ہیں اور بالآخر انہوں نے سمجھ لیا۔”
یہ بیان بھارتی حکومت کے لیے اس وقت خاصا پریشان کن تھا کیونکہ مودی خود بہار کی ریاست میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ کسی بھی سطح پر “پاکستان” کے ذکر کو اپوزیشن اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر سکتی تھی۔
کانگریس رہنما راہول گاندھی نے مودی کی خاموشی پر تنقید کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا“مودی صاحب ٹرمپ کے سامنے بول کیوں نہیں پاتے؟ کیا وہ ڈرتے ہیں کہ ٹرمپ پھر پاکستان کا نام لے لیں گے؟
بھارت–امریکہ تعلقات میں خلیج، روسی تیل پر بھی تنازع
بھارت اور امریکہ کے درمیان حالیہ مہینوں میں تجارتی تعلقات میں سرد مہری دیکھنے میں آئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اگست میں بھارتی برآمدات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیا، جسے انہوں نے “روس سے تیل خریدنے کی سزا قرار دیا۔
ایک امریکی تجارتی عہدیدار نے بتایا ٹرمپ انتظامیہ سمجھتی ہے کہ بھارت روس کے ساتھ معاشی تعاون کے ذریعے بالواسطہ طور پر یوکرین جنگ کو سہارا دے رہا ہے۔دوسری جانب بھارت نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی توانائی کی ضروریات “قومی مفاد” کے مطابق ہیں۔
پاکستان کا مؤقف — ٹرمپ امن کے ضامن؟
اسلام آباد میں سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان نے صدر ٹرمپ کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں امن کے لیے “مثبت قوت” قرار دیا ہے۔
پاکستانی وزیرِ خارجہ کے ایک قریبی معاون نے کہا“اگر کسی بڑی طاقت نے تناؤ کم کرنے میں کردار ادا کیا ہے تو اسے سراہا جانا چاہیے۔ صدر ٹرمپ نے کم از کم تصادم کے بجائے مذاکرات کی راہ دکھائی۔
پاکستان نے یہاں تک کہ ٹرمپ کو امن کے لیے نوبیل انعام کے لیے نامزد کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔
مودی کی غیر حاضری غیر معمولی، لیکن سوچ سمجھ کر کی گئی
مودی کی غیر حاضری کو غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وہ تقریباً ہر آسیان اجلاس میں شریک رہے ہیں۔تاہم اس بار انہوں نے صرف ایک “ورچوئل خطاب” کیا جبکہ بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات کی۔
روبیو نے صحافیوں سے گفتگو میں واضح کیا“امریکہ کے پاکستان سے تعلقات، بھارت کے نقصان پر نہیں ہیں۔ ہم دونوں کے ساتھ متوازن شراکت داری چاہتے ہیں۔
مودی کا محتاط رویہ یا سیاسی دفاع؟
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، مودی کا فیصلہ وقتی طور پر درست لگتا ہے لیکن طویل مدت میں یہ بھارت کی سفارتی پوزیشن کو کمزور کر سکتا ہے۔نئی دہلی کی پالیسیوں پر نظر رکھنے والے ماہرِ خارجہ اُدے بھاسکر کے مطابق“مودی کا پیغام واضح ہے وہ اس وقت کسی ایسے تنازع سے بچنا چاہتے ہیں جو اندرونِ ملک انتخابی نتائج پر اثر ڈالے۔ لیکن عالمی سیاست میں خاموشی اکثر کمزوری سمجھی جاتی ہے۔



