
پاکستان کی فضائی پابندی سے بحران شدید : ایئر انڈیا کا چین کے سنکیانگ روٹ کے لیے لابنگ شروع
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز رائڑز کی ایک رپورٹ کے حوالے سے لکھتا ہے کہ ایئر انڈیا نے پاکستان کی فضائی پابندی سے بڑھتے مالی بحران کے باعث چین کے سنکیانگ فضائی علاقے کے استعمال کے لیے لابنگ شروع کر دی
ایئر انڈیا بھارتی حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ چین سے بات کرے تاکہ اسے سنکیانگ کے ایک حساس فوجی فضائی علاقے کے استعمال کی اجازت مل سکے تاکہ پروازوں کا دورانیہ کم ہو سکے کیونکہ پاکستان کی جانب سے بھارتی طیاروں پر فضائی حدود کی پابندی کے بعد کمپنی کو شدید مالی نقصان ہو رہا ہے۔ یہ بات کمپنی کی ایک دستاویز میں سامنے آئی ہے۔
یہ غیر معمولی درخواست اس وقت سامنے آئی ہے جب محض چند ہفتے قبل بھارت اور چین کے درمیان پانچ سال بعد براہِ راست پروازیں بحال ہوئی ہیں جو ہمالیہ میں سرحدی جھڑپ کے باعث معطل تھیں۔
ایئر انڈیا اپنی شہرت اور بین الاقوامی نیٹ ورک کو دوبارہ مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن جون میں لندن جانے والا اس کا بوئنگ 787 ڈریم لائنر گجرات میں گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں 260 افراد جاں بحق ہوئے۔ اس حادثے کے بعد کمپنی کو عارضی طور پر پروازیں کم بھی کرنا پڑیں۔
تاہم پاکستان کی فضائی حدود بند ہونے کے باعث یہ کوشش مزید مشکل ہو گئی ہے کیونکہ اپریل کے آخر میں سفارتی تناؤ بڑھنے کے بعد پاکستان نے بھارتی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی تھیں۔
ایئر انڈیا جو کہ واحد بھارتی ایئرلائن ہے جس کا بڑا بین الاقوامی نیٹ ورک ہے نے بتایا کہ پاکستان کی پابندی کے باعث بعض طویل روٹس پر ایندھن کے اخراجات میں 29 فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے اور پروازوں کا وقت تین گھنٹے تک بڑھ گیا ہے۔ یہ بات اکتوبر کے آخر میں انڈین حکام کو جمع کرائی گئی ایک غیر رپورٹ شدہ دستاویز میں بتائی گئی۔
بھارتی حکومت ایئر انڈیا کی اس درخواست کا جائزہ لے رہی ہے کہ چین سے سفارتی سطح پر بات کی جائے تاکہ سنکیانگ میں ہوتان، کاشغر اور ارمچی کے ہوائی اڈوں کو ایمرجنسی لینڈنگ کے لیے استعمال کیا جا سکے اور اس فضائی راستے سے امریکہ، کینیڈا اور یورپ تک پروازوں کے وقت میں واضح کمی آئے۔
دستاویز میں کہا گیا ہے ایئر انڈیا کا لانگ ہال نیٹ ورک شدید آپریشنل اور مالی دباؤ کا شکار ہے۔ ہوتان روٹ حاصل کرنا ایک اسٹریٹجک آپشن ثابت ہو سکتا ہے۔
ایئر انڈیا جو ٹاٹا گروپ اور سنگاپور ایئرلائنز کے زیر ملکیت ہے نے اندازہ لگایا ہے کہ پاکستان کی فضائی پابندی کے باعث اس کے سالانہ ٹیکس سے پہلے منافع پر 455 ملین ڈالر کا منفی اثر پڑ رہا ہے جو کہ مالی سال 2024-25 کے 439 ملین ڈالر کے خسارے سے بھی زیادہ ہے۔
چینی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ وہ اس معاملے سے آگاہ نہیں اور مزید معلومات کے لیے متعلقہ حکام سے رجوع کرنے کو کہا۔ایئر انڈیا، اور بھارت، چین و پاکستان کے سول ایوی ایشن حکام نے رائٹرز کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
ہوتان روٹ نہ ملا تو کچھ راستے ‘ ناقابلِ عمل’
جس چینی فضائی علاقے تک رسائی کی درخواست کی جا رہی ہے وہ دنیا کے کچھ بلند ترین 20 ہزار فٹ سے زیادہ بلند پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ فضائی ماہرین کے مطابق ان حالات میں اگر پرواز میں پریشر کم ہو جائے تو ایمرجنسی لینڈنگ کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں، اسی لیے بین الاقوامی ائیرلائنز اس راستے سے گریز کرتی ہیں۔
مزید اہم بات یہ ہے کہ یہ پورا فضائی علاقہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے ویسٹرن تھیٹر کمانڈ کے ماتحت آتا ہے۔جہاں جدید میزائل،ڈرون اور فضائی دفاع کے نظام موجود ہیں جبکہ بعض ہوائی اڈے فوج اور سویلین دونوں استعمال کرتے ہیں۔
امریکی پینٹاگون کی دسمبر رپورٹ کے مطابق اس تھیٹر کمانڈ کی ذمہ داریوں میں بھارت کے ساتھ ممکنہ جنگ یا کشیدگی کا جواب دینا شامل ہے۔اوپن سورس انٹیلیجنس محقق ڈیمین سائمن کے مطابق چین کی فوج نے حال ہی میں ہوتان ائربیس کو مزید وسعت دی ہے۔
رائٹرز کے مطابق ائیرنیو ریڈار کے ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ گزشتہ 12 مہینوں میں کوئی بھی غیر چینی ائیرلائن ہوتان ایئرپورٹ پر نہیں اتری۔
ایوی ایشن کنسلٹنسی اینڈاؤ اینالیٹکس کے بانی شُکور یوسف نے کہا ایئر انڈیا کوشش کر سکتی ہے،مگر یہ بہت غیر یقینی ہے کہ چین اسے اس فضائی علاقے تک رسائی دے گا۔یہاں ہنگامی لینڈنگ کے مواقع اور سیکیورٹی خدشات بہت زیادہ ہیں۔
عالمی سطح پر فضائی راستے تنازعات سے سکڑ رہے ہیں
یوکرین جنگ کے بعد امریکی ائیرلائنز پر روس کے اوپر پرواز کی پابندی ہے،جس کے بعد انہوں نے متعدد امریکہ–بھارت راستے بند کر دیے تھے۔ اس سے ایئر انڈیا کو نان اسٹاپ پروازوں میں تقریباً اجارہ داری مل گئی تھی۔
لیکن پاکستان کی پابندی کے بعد ایئر انڈیا کو دہلی واشنگٹن روٹ کو اگست میں معطل کرنا پڑا۔ دیگر راستے بھی زیرِ غور ہیں جبکہ ممبئی اور بینگلورو سے سان فرانسسکو جانے والی براہِ راست پروازیں تین گھنٹے اضافی وقت اور کولکتا میں تکنیکی اسٹاپ کی وجہ سے ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی ہیں۔
ایئر انڈیا نے کہا کہ بعض راستوں پر 15٪ تک مسافر اور کارگو گنجائش کم کرنا پڑی ہے۔اس کے مقابلے میں لفتھانزا کی سان فرانسسکو–ممبئی پرواز، میونخ کے راستے، ایئر انڈیا سے صرف 5 منٹ زیادہ وقت لیتی ہے۔
دستاویز کے مطابق مسافر کم وقت والے روٹس ہونے کی وجہ سے غیر ملکی ائیرلائنز کا انتخاب کر رہے ہیں، کیونکہ انہیں پاکستان کی فضائی حدود کا فائدہ حاصل ہے۔ایئر انڈیا کا اندازہ ہے کہ ہوتان روٹ ملنے سے اضافی ایندھن کی ضرورت، پرواز کا وقت اور مالی نقصان تقریباً 11.3 لاکھ ڈالر ہفتہ وار کم ہو سکتا ہے۔
کیس فلو پر دباؤ اور مالی مشکلات میں اضافہ
چونکہ پابندی ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے، ایئر انڈیا نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کی فضائی حدود کھلنے تک اسے عارضی سبسڈی دی جائے۔ایئر انڈیا جس نے 70 ارب ڈالر کے نئے طیاروں کا آرڈر دیا ہے، پرانے ٹیکس مسائل کے حل میں بھی مدد چاہتی ہے۔
بھارتی حکومت نے 2022 میں ٹاٹا گروپ کو فروخت کے وقت پچھلے واجبات کی ذمے داری اپنے ذمے لے لی تھی، مگر اب بھی 725 ملین ڈالر کے ٹیکس نوٹس موصول ہو رہے ہیں جن سے قانونی پیچیدگیاں اور شہرت کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔
مارچ میں جاری ایک خفیہ سرکاری نوٹس کے مطابق ٹیکس حکام نے ایک کیس میں 58 ملین ڈالر کی ریکوری کے لیے سخت اقدامات کئے ہیں۔
ایئر انڈیا نے کہا کہ ان ٹیکس معاملات کو چیلنج کرنے سے اس کے کیس فلو پر مزید دباؤ بڑھ رہا ہے، حالانکہ نجکاری کے وقت یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ایسے مسائل حل کیے جائیں گے۔



