
ٹرمپ نے سعودی عرب کو ایف-35 طیاروں کی فروخت کی منظوری کا عندیہ دے دیا
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) جیو نیوز کے مطابق وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان (ایم بی ایس) کے ساتھ ملاقات میں جدید لڑاکا طیاروں پر بات چیت کریں گے، جس کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو کہا کہ وہ سعودی عرب کو امریکی ساختہ ایف-35 فائٹر جیٹس کی فروخت کی منظوری دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ اعلان ایسے وقت میں آیا ہے جب وہ منگل کو سعودی ولی عہد ایم بی ایس کی میزبانی کرنے والے ہیں۔
ٹرمپ نے اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں کہوں گا کہ ہم یہ کرنے جا رہے ہیں۔ ہم ایف-35 فروخت کریں گے۔
سعودی عرب کی جانب سے 48 ایف-35 طیاروں کی ممکنہ خریداری—جو کئی ارب ڈالر کا سودا ہوسکتا ہے۔ رواں ماہ کے اوائل میں پینٹاگون کے ایک اہم مرحلے سے بھی گزر چکی ہے، جیسا کہ روئٹرز نے رپورٹ کیا۔
یہ معاہدہ مشرقِ وسطیٰ کے تزویراتی توازن کو بدل سکتا ہے اور واشنگٹن کی اُس پالیسی کی آزمائش بن سکتا ہے جس کے تحت اسرائیل کی “معیاری فوجی برتری” کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
ٹرمپ کی منظوری اس وقت سامنے آئی ہے جب نیویارک ٹائمز نے اطلاع دی کہ کچھ امریکی حکام کو خدشہ ہے کہ اگر یہ ٹیکنالوجی سعودی عرب گئی تو چین اسے حاصل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
امریکا اب تک ایف-35 کی فروخت صرف قریبی اتحادی ممالک تک محدود رکھتا آیا ہے،جن میں یورپی نیٹو اتحادی اور اسرائیل شامل ہیں۔
واشنگٹن نے 2019 میں ترکی کو ایف-35 پروگرام سے نکال دیا تھا کیونکہ انقرہ کے روسی میزائل دفاعی نظام کی خریداری سے یہ خدشہ پیدا ہوا تھا کہ ماسکو طیارے کی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
ای آئی اور نیوکلیئر ایجنڈا
محمد بن سلمان 2018 کے بعد پہلی مرتبہ امریکا کا دورہ کر رہے ہیں۔ان کے اس دورے کا مقصد تیل اور سکیورٹی کے شعبوں میں دہائیوں پرانی شراکت داری کو مزید مضبوط بنانا ہے جبکہ تجارت، ٹیکنالوجی اور ممکنہ طور پر سول نیوکلیئر شعبے میں بھی تعاون بڑھانے پر بات ہوگی۔
ٹرمپ 600 ارب ڈالر کی اُس سعودی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے کے خواہاں ہیں جس کا اعلان انہوں نے مئی میں سعودی عرب کے دورے کے دوران کیا تھا۔ اس موقع پر ٹرمپ نے انسانی حقوق سے مکمل گریز کیا تھا اور توقع ہے کہ اس بار بھی موضوع نہیں چھیڑیں گے۔
سعودی ولی عہد خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان سکیورٹی یقین دہانیاں چاہتے ہیں اور ساتھ ہی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی اور سول نیوکلیئر پروگرام میں پیش رفت کے متلاشی ہیں۔
دفاعی معاہدے پر توجہ
دونوں ممالک کے درمیان طویل عرصے سے ایک غیر رسمی سمجھوتہ چلا آ رہا ہے۔ سعودی عرب نسبتاً کم قیمت پر تیل فروخت کرتا ہے اور امریکا اس کی سکیورٹی کا ضامن بنتا ہے۔
لیکن یہ توازن 2019 میں اس وقت بگڑ گیا جب ایران نے سعودی آئل تنصیبات پر حملہ کیا اور واشنگٹن نے کوئی بڑا جواب نہیں دیا۔تشویش اس وقت پھر بڑھی جب ستمبر میں اسرائیل نے دوحہ، قطر میں ایک حملہ کیا جس کا ہدف مبینہ طور پر حماس کے ارکان تھے۔
اس واقعے کے بعد ٹرمپ نے قطر کے ساتھ ایک دفاعی معاہدے پر صدارتی حکم نامے کے ذریعے دستخط کیے۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب کو بھی کوئی ایسا ہی انتظام مل سکتا ہے۔
سعودی عرب نے حالیہ مذاکرات میں امریکی کانگریس سے باقاعدہ منظور شدہ دفاعی معاہدے کا مطالبہ کیا تھا، مگر واشنگٹن نے اسے اسرائیل کے ساتھ سعودی نارملائزیشن سے مشروط کر رکھا ہے۔
ریاض نے بدلے میں یہ شرط رکھی ہے کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کا وعدہ کرے لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اتوار کو ایک بار پھر فلسطینی ریاست کی مخالفت دہرائی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا ممکنہ ایگزیکٹو آرڈر قطر والے دفاعی معاہدے جیسا ہوگا، جو سعودی خواہشات سے کم مگر ایک “ابتدائی قدم” سمجھا جائے گا۔
ڈینس راس جو کئی امریکی حکومتوں میں مشرقِ وسطیٰ مذاکرات کار رہے ہیں کا کہنا ہے کہ اُن کے خیال میں یہ حکم نامہ صرف اس بات کی ہدایت دے گا کہ خطرے کی صورت میں امریکا اور سعودی عرب فوری طور پر مشاورت کریں۔
یہ حکم واشنگٹن کو سعودی دفاع کے لیے عملی جنگ میں کودنے کا پابند نہیں کرے گا۔ان کے مطابق اس میں ممکنہ اقدامات جیسے اسلحہ کی فراہمی، پیٹریاٹ یا تھاد دفاعی نظام کی تعیناتی، یا بحری فوجی یونٹس روانہ کرنے جیسے اقدامات شامل ہوسکتے ہیں۔
علاقائی مقابلے کے تناظر میں معاہدے کی اہمیت
سعودی عرب، یو اے ای اور ایران کے مقابلے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے اور ویژن 2030 کے اہداف کے لیے آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور نیوکلیئر ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اعلیٰ درجے کے کمپیوٹر چِپس تک رسائی سعودی منصوبوں کے لیے انتہائی اہم سمجھی جا رہی ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں ایک اربوں ڈالر کے امریکی ڈیٹا سینٹر معاہدے کے ذریعے یہ ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے۔
ایم بی ایس ایک سول نیوکلیئر پروگرام کے معاہدے کے خواہاں ہیں تاکہ مملکت کی معیشت تیل پر انحصار سے نکل سکے۔ایسا معاہدہ سعودی عرب کو امریکی نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور تحفظات تک رسائی دے سکتا ہے، اور اسے یو اے ای کے پروگرام اور حریف ایران کے مقابلے میں زیادہ مضبوط پوزیشن میں لا سکتا ہے۔
لیکن پیش رفت اس لیے سست ہے کہ امریکا تقاضا کرتا ہے کہ سعودی عرب یورینیم کی افزودگی یا ایندھن خرچ کی ری پروسیسنگ نہ کرے جو دونوں ایٹمی ہتھیاروں تک ممکنہ راستے سمجھے جاتے ہیں۔
ڈینس راس کا کہنا ہے کہ وہ نیوکلیئر توانائی پر کسی معاہدے یا کم از کم اس کی پیش رفت کے اعلان کی توقع رکھتے ہیں۔



