
افغانستان میں نمائندہ حکومت نہیں، دراندازی ہوئی تو جنگ بندی ختم سمجھی جائے گی، ڈی جی آئی ایس پی آر
ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی، جب کہ افغانستان میں اس وقت کوئی عوامی نمائندہ حکومت نہیں ہے۔ پاکستان افغانستان میں ایک جامع اور نمائندہ حکومت کا حامی ہے جو دہشتگرد تنظیموں کی حمایت نہ کرے اور عوام، خصوصاً خواتین کے حقوق کا احترام کرے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر افغانستان کی جانب سے پاکستان میں دراندازی جاری رہی تو جنگ بندی کو ختم سمجھا جائے گا اور ایسے کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ “بس بہت ہو گیا، اب افغانستان سرحد پار دہشتگردی ختم کرے۔ بہتر ہے افغان طالبان بات چیت کے ذریعے مسائل حل کریں، ورنہ ہم دوسرے طریقے سے بھی حل کر سکتے ہیں۔”
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں چاہتی، اسے سیاست سے دور رکھا جائے۔ آئینی ترامیم کا اختیار حکومت اور پارلیمنٹ کے پاس ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ سہیل آفریدی خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ ہیں، اس معاملے میں کسی ادارے یا شخص کی پسند ناپسند اہم نہیں، ان سے ریاستی اور سرکاری تعلقات برقرار رہیں گے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کا تعلق نارکو اکنامی سے ہے، جہاں 12 ہزار ایکڑ پر پوست کی کاشت کی جا رہی ہے۔ فی ایکڑ پوست سے 18 سے 32 لاکھ روپے منافع حاصل کیا جاتا ہے، اور اس کام میں مقامی سیاستدان اور بااثر افراد بھی ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ بھارت اس بار سمندر کے راستے کوئی فالس فلیگ آپریشن کر سکتا ہے، مگر پاک فوج مکمل الرٹ ہے۔
انہوں نے کہا: “بھارت جو چاہے کر لے، اس بار جواب پہلے سے زیادہ سخت ہوگا۔”
ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ امریکی ڈرونز کے ذریعے پاکستان سے افغانستان میں حملے کا الزام جھوٹا ہے۔
“پاکستان نے امریکا کو اپنی سرزمین سے کسی قسم کی کارروائی کی اجازت نہیں دی، یہ سب افغانستان کا پراپیگنڈا ہے۔ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد پکے جھوٹے ہیں،” انہوں نے کہا۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا کہ افغان طالبان نے لویا جرگہ بلانے اور نمائندہ حکومت بنانے کا وعدہ پورا نہیں کیا۔
ان کے مطابق افغان سرزمین سے ہونے والی دہشتگردی میں افغان فوج کے سپاہی بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ پچھلے تین سے چار ماہ کے دوران پاکستان میں مارے جانے والے دہشتگردوں میں 60 فیصد افغان باشندے شامل تھے۔
انہوں نے کہا کہ دوحا اور استنبول مذاکرات میں ایک ہی نکتہ زیر بحث رہا — افغانستان سے سرحد پار دہشتگردی کا خاتمہ۔
انہوں نے زور دیا کہ “پاکستان امن چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل ہو۔”
آخر میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ “اگر ملک میں علماء، میڈیا اور سیاستدان یک زبان ہوں تو فیصلے کرنا آسان ہو جائے گا۔”




