
دہشت گردی سے پاک ترکیہ: ایک گھریلو امن جو خطے کو نئی شکل دے رہا ہے،رپورٹ
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) عالمی خبر رساں ادارے الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پی کے کے کے خاتمے نے امن کی ایک منفرد ترک راہ متعین کی ہے، جو توانائی کے تحفظ اور علاقائی تعاون کو مضبوط بنا رہی ہے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوان
تقریباً نصف صدی تک دہشت گردی نے ترکیہ کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی پر سایہ ڈالے رکھا۔ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) اور اس کے شام، عراق اور ایران میں موجود اتحادی گروہ علیحدگی پسند تشدد کے ذریعے خطے کو غیر مستحکم کرتے رہے۔ مئی 2025 میں پی کے کے کی تحلیل ایک فیصلہ کن لمحہ ہے — نہ صرف مسلح تصادم کے اختتام کا نشان بلکہ ایک ایسے نئے دور کا آغاز جو پورے خطے کے مستقبل کو بدل سکتا ہے۔
جبکہ غیر حل شدہ تنازعات، بڑھتی ہجرت، اور توانائی کی رقابتیں عالمی بے یقینی میں اضافہ کر رہی ہیں، ترکیہ کے فیصلہ کن اقدامات پائیدار امن، محفوظ توانائی راہداریوں اور دیرپا خوشحالی کی امید فراہم کرتے ہیں — ترکیہ اور اس سے آگے کے پورے خطے کے لیے۔
انسانی اور معاشی قیمت
دہشت گردی نے انسانی اور معاشی دونوں لحاظ سے تباہ کن اثرات ڈالے۔ 1980 کی دہائی کے اوائل سے لے کر 2020 کی دہائی تک جاری اس مہم میں تقریباً 50,000 جانیں ضائع ہوئیں اور 11 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔
یہ صرف سلامتی کا نہیں بلکہ ایک معاشی اور سماجی بحران بھی تھا۔ انسانی المیے کے علاوہ، اس کی مالی قیمت بھی بھاری تھی — سرکاری تخمینوں کے مطابق دہشت گردی کے خلاف براہِ راست اخراجات 1.8 ٹریلین ڈالر تک پہنچے، اور اگر کھوئی ہوئی معاشی نمو، سرمایہ کاری، سیاحت اور تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کو شامل کیا جائے تو یہ نقصان 3 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر جاتا ہے۔
امن اس کے برعکس، ایک مثبت انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تجزیات کے مطابق دہشت گردی سے وابستہ اخراجات کے خاتمے سے ترکیہ کے جنوب مشرقی علاقوں میں فی کس آمدنی میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔ اس کے علاوہ، 2028 تک کے لیے 14 ارب ڈالرکا ایک ترقیاتی پروگرام شروع کیا گیا ہے جس کے تحت 198 منصوبوں کے ذریعے 5.7 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا کرنے کا ہدف ہے — جن میں زراعت، سیاحت اور نجی سرمایہ کاری پر توجہ دی جا رہی ہے۔
ترکیہ کا امن کی طرف سفر
ترکیہ کے تنازع کے حل کو منفرد بنانے والی چیز اس کی شمولیت اور شہری شراکت داری پر مبنی پالیسی ہے۔ یہ پہلا امن عمل ہے جو کسی بیرونی ثالثی کے بغیر، مکمل طور پر ملک کے جمہوری اداروں — خصوصاً پارلیمان — کے ذریعے چلایا گیا۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو بیسویں صدی میں قومی ریاستوں کے قیام کے بعد متعدد ممالک کو علیحدگی پسند تحریکوں کا سامنا ہوا جو وقت کے ساتھ دہشت گردی میں بدل گئیں۔
مثلاً آئرلینڈ اور برطانیہ کے درمیان “گڈ فرائڈے ایگریمنٹ” امریکی اور کینیڈین ثالثی سے صرف سات سال میں طے پایا۔
اسپین میں “ای ٹی اے” کے ساتھ امن عمل بین الاقوامی گروپ اور کوفی عنان جیسے رہنماؤں کی مدد سے چھ سال میں مکمل ہوا۔
اسی طرح کولمبیا میں “فراک” (ایف اے آر سی) کے ساتھ امن معاہدہ چار سال میں ناروے اور کیوبا کی ضمانت کے ساتھ طے پایا۔
اس کے برعکس، ترکیہ میں صدر ایردوان کی پہلی اپیل 2024 کے آخر میں آئی، اور صرف کم از کم ایک سال میں — مئی 2025 میں — پی کے کے کے ہتھیار جلانے اور تحلیل کے اعلان تک پہنچ گئی۔ یہ رفتار جدید امن تاریخ میں بے مثال ہے۔
جیسا کہ پروفیسر ایرا ولیم زارٹمین نے اپنی “پختگی کا نظریہ” میں کہا کہ “امن اس وقت ممکن ہوتا ہے جب حالات پختہ ہو جائیں” — ترکیہ کی تیز رفتار پیش رفت حیران کن ہے، مگر اصل امتحان اس کے نفاذ کی مکمل کامیابی میں ہے۔
طاقت کا سنگم
ترکیہ کی جغرافیائی حیثیت — یورپ، ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے سنگم پر — اسے عالمی توانائی کے تحفظ کے لیے کلیدی بناتی ہے۔ آج ترکیہ ایک علاقائی محور ہے جو مشرقی بحیرہ روم سے لے کر قفقاز، بحیرہ اسود اور مشرقِ وسطیٰ تک پھیلا ہوا ہے۔
یہ خطہ دنیا کے 65 فیصد تیل اور 45 فیصد قدرتی گیس کے ذخائر پر مشتمل ہے۔
ترکیہ سے گزرنے والی اہم توانائی راہداریوں میں شامل ہیں
TANAP (Trans-Anatolian Gas Pipeline) — سالانہ 16 ارب مکعب میٹر گیس یورپ پہنچاتی ہے۔
TurkStream — 31.5 ارب مکعب میٹر گیس جنوب مشرقی یورپ کو فراہم کرتی ہے۔
Baku–Tbilisi–Ceyhan (BTC) پائپ لائن — روزانہ 1.2 ملین بیرل تیل کی ترسیل کرتی ہے۔
یہی راہداری دہشت گردی کا ہدف بھی رہیں۔
انیس سو اسی (1980) کی دہائی سے پی کے کے نے توانائی کے ڈھانچے پر 60 سے زائد حملے کیے، جن سے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔
کِرکُک-جیہان پائپ لائن کو 2005، 2010، 2013 اور 2015 میں نشانہ بنایا گیا۔بی ٹی سی پائپ لائن پر 2008 میں حملہ ہوا جس سے کئی ہفتے ترسیل معطل رہی۔
باکو-تبلیسی-ارزورم گیس پائپ لائن پر 2012 اور 2015 میں حملے ہوئے۔یہاں تک کہ نیٹو کے فیول نیٹ ورک پر بھی 2012 اور 2017 میں حملے ہوئے۔لہٰذا یورپ کے لیے توانائی کی راہیں محفوظ رکھنے کے لیے ایک دہشت گردی سے پاک ترکیہ ناگزیر ہے — اور اس کے لیے یورپی و نیٹو اتحادیوں کا عملی تعاون ضروری ہے۔
اجتماعی ذمہ داری
یورپی یونین نے پی کے کے کے خاتمے کو ایک “اہم موقع” قرار دیا۔یورپی خارجہ امور کی اعلیٰ نمائندہ کایا کالاس نے اسے “خطے سے آنے والی نادر خوشخبری” کہا، جبکہ یورپی پارلیمنٹ کے ترکیہ پر رپورٹر ناچو سانچیز امور نے اسے “تاریخی قدم” قرار دیا۔
چونکہ پی کے کے کو یورپی یونین اور امریکہ دونوں دہشت گرد تنظیم مانتے ہیں، اس کے خاتمے اور شام میں اس کے ذیلی گروہوں (وائی پی جی اور ایس ڈی ایف) کی تحلیل سے نہ صرف ترکیہ کی جمہوریت مضبوط ہوگی بلکہ یورپی انضمام کے عمل کو بھی تقویت ملے گی۔
نیٹو کے لیے جس کا ترکیہ جنوبی مشرقی ستون ہے، اتحاد کی روح اور وعدوں کی پاسداری ناگزیر ہے۔بین الاقوامی برادری کو بھی اس امن عمل کی حمایت کرنی چاہیے اور ایسے پراکسی ڈھانچوں سے اجتناب کرنا چاہیے جو اسے نقصان پہنچائیں۔
رکاوٹیں اور خطرات
اہم چیلنج یہ ہے کہ تمام پی کے کے ارکان اور اس سے منسلک گروہ دس مارچ دوہزار پچیس کے معاہدے کی مکمل پاسداری کریں جس کے تحت وائی پی جی/ایس ڈی ایف گروہوں نے شامی مسلح افواج میں ضم ہو کر دمشق کے کنٹرول میں آنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
اگر یہ گروہ مکمل طور پر ہتھیار نہ ڈالیں تو علاقائی سلامتی — خصوصاً یورپ کی براہِ راست خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
ایک اور بڑا خطرہ اسرائیل ہے جو ایس ڈی ایف وائی پی جی کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، جس سے ترکیہ کے امن عمل کو نقصان پہنچ رہا ہے۔اسی دوران غزہ میں جاری انسانی المیہ، اور اسرائیل کے شام، لبنان، ایران، تیونس، یمن اور حتیٰ کہ قطر میں حملے، خطے کی نازک سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ یہ اقدامات بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں اور نئی امن فضا کے لیے ایک بڑا خطرہ۔
ایک نیا سویرا
دہائیوں کے خوف، دکھ اور تقسیم کے بعد اب اتحاد اور خوشحالی کی امید جنم لے رہی ہے۔چیلنجز برقرار رہیں گے، مگر سیاسی وحدت، سماجی ہم آہنگی اور عالمی تعاون اس لمحے کو ایک تاریخی موقع بنا سکتے ہیں۔دہشت گردی سے پاک ترکیہ نہ صرف توانائی اور تجارت کے راستوں کو محفوظ بناتا ہے بلکہ اعتماد، سرمایہ کاری اور ترقی پر مبنی ایک نیا علاقائی ماڈل پیش کرتا ہے۔
یہ تبدیلی یورپ سے لے کر قفقاز اور مشرقِ وسطیٰ تک پورے خطے کے لیے گہرے اثرات رکھتی ہے۔دہشت، ہجرت اور عدم استحکام کے خطرات ختم کر کے ترکیہ ایک نئے امن و استحکام کے عہد کی بنیاد رکھ رہا ہے — جو باہمی مفاد اور پائیدار سلامتی پر مبنی ہے۔
نوٹ
اس مضمون میں پیش کیے گئے خیالات مصنف کے ذاتی ہیں اور ضروری نہیں کہ یہ الجزیرہ کے ادارتی مؤقف کی عکاسی کرتے ہوں۔





