
ٹرمپ نے اسرائیل اور حماس کو غزہ معاہدے پر راضی کیسے کیا ؟
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) دی نیوز نے عالمی نشریاتی ایجنسی ” اے ایف پی ” کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ایک روایتی ڈونلڈ ٹرمپ لمحہ تھا وہ شخص جو خود کو “امن کے پیامبر” کہلوانا پسند کرتا ہے، ایک بار پھر اسٹیج پر تھا۔
امریکی صدر کے اعلیٰ سفارتکار نے وائٹ ہاؤس میں براہِ راست نشریاتی اجلاس کے دوران ٹرمپ کو ایک پرچی تھمائی اور ان کے کان میں سرگوشی کی کہ “غزہ معاہدہ طے پا گیا ہے۔”
کچھ ہی دیر بعد، ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ “ٹروتھ سوشل” پر اعلان کر دیا
“مبارک ہو امن قائم کرنے والے!” (BLESSED ARE THE PEACEMAKERS!)

لیکن جہاں یہ منظر کیمروں کے سامنے پیش ہوا، وہیں پسِ پردہ ٹرمپ کی اصل سرگرمی ایک مختلف کہانی سنا رہی تھی۔ایک ایسی جس میں انہوں نے ایک ہچکچاتے بینجمن نیتن یاہو پر دباؤ ڈالا اور عرب حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔
نیتن یاہو پر دباؤ
نوبل امن انعام حاصل کرنے کی خواہش اور اپنی سیاسی میراث کو مضبوط بنانے کے لیے ٹرمپ نے اس بار اسرائیل کے لیے “کھلا چیک” دینے والا پرانا رویہ ترک کر دیا۔
انتیس (29) ستمبر کو جب ٹرمپ نے نیتن یاہو کو وائٹ ہاؤس مدعو کر کے اپنا 20 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا تو بظاہر وہ مکمل طور پر اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔
انہوں نے کہا تھا اگر حماس نے اس منصوبے کو قبول نہ کیا تو اسرائیل کو میرا مکمل ساتھ حاصل ہوگا تاکہ وہ ‘کام ختم’ کر دے۔
لیکن درپردہ کہانی کچھ اور تھی، ٹرمپ اصل میں نیتن یاہو پر دباؤ ڈال رہے تھے۔
یہ منصوبہ دراصل ایک ہفتہ قبل اقوامِ متحدہ میں عرب اور مسلم رہنماؤں سے مشاورت کے بعد تیار کیا گیا تھا۔
جب نیتن یاہو کے سامنے یہ پیش ہوا تو انہیں اس میں وہ نکات نظر آئے جنہیں وہ ہمیشہ رد کرتے آئے تھے، خاص طور پر فلسطینی ریاست کے قیام پر رضامندی۔
قطر پر حملے کے بعد عرب اتحاد کا دباؤ
اس دوران اسرائیل نے ایک حساس مرحلے میں قطر میں موجود حماس کے نمائندوں پر حملہ کر دیا جو امریکہ کا قریبی اتحادی ہے۔
ٹرمپ اس واقعے پر سخت برہم ہوئے اور عرب ممالک کے اشتراک سے اسرائیل پر دباؤ بڑھایا کہ وہ معاہدے پر متفق ہوں۔
ٹرمپ نے یہاں تک کیا کہ وائٹ ہاؤس کے اوول آفس سے نیتن یاہو کو قطر کے امیر کو فون کرنے اور معافی مانگنے پر مجبور کیا۔ ٹرمپ خود فون کے ساتھ بیٹھے رہے جب نیتن یاہو ایک لکھے ہوئے بیان سے معافی کے الفاظ پڑھ رہے تھے۔

وائٹ ہاؤس کی جاری کردہ تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ فون تھامے ہوئے ہیں، جبکہ ایک سینئر قطری اہلکار کمرے میں موجود تھا تاکہ نیتن یاہو اسکرپٹ سے نہ ہٹیں۔
اس کے بعد ٹرمپ نے قطر کو امریکی سیکیورٹی گارنٹی دینے کا غیر معمولی حکم نامہ بھی دستخط کیا۔
یہ سب ٹرمپ کے ان قریبی تعلقات کی عکاسی کرتا ہے جو انہوں نے اپنی دونوں صدارتوں میں عرب ریاستوں کے ساتھ استوار کیے ہیں۔
اپنے پہلے دورِ صدارت میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے ابراہام معاہدوں کے تحت اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔
اس بار ٹرمپ کا پہلا بڑا غیر ملکی دورہ قطر، مصر اور ابوظبی کا تھا — اسرائیل نہیں۔
حماس کی پیشکش پر فوری ردِ عمل
ٹرمپ نے حماس کو 5 اکتوبر تک کی ڈیڈلائن دی کہ وہ معاہدہ قبول کرے — ورنہ “جہنم کے دروازے کھل جائیں گے۔”
حماس نے اس کا جواب ہوشیاری سے دیا۔اس نے ٹرمپ کی اُس مہم پر کھیلنے کی کوشش کی جس میں وہ غزہ میں قید تمام یرغمالیوں کی رہائی کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے۔
ٹرمپ جو متعدد بار وائٹ ہاؤس میں یرغمالیوں کے خاندانوں سے ملاقات کر چکے تھے فوراً اس موقع کو سیاسی جیت میں بدل دیا۔انہوں نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا اور ایک غیر معمولی قدم کے طور پراس گروپ کا بیان شیئر کیا جسے امریکہ نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔
اگرچہ حماس نے منصوبے کے زیادہ تر نکات قبول نہیں کیے تھے، ٹرمپ نے اس پر توجہ نہ دی اور اسرائیل، حماس اور ثالثوں کو کہا کہ وہ تفصیلات بعد میں طے کریں۔
ٹرمپ نے کو بتایا کہ انہوں نے نیتن یاہو سے کہا یہ تمہارا موقع ہے فتح کا۔ تمہیں یہ قبول کرنا ہوگا۔ میرے ساتھ، تمہارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بار اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ جنگ بندی معاہدے میں ایک طاقتور ثالث کا کردار ادا کیا — ایک ایسا کردار جس میں دباؤ، سفارتکاری، عرب حمایت، اور ذاتی سیاسی مقاصد سب شامل تھے۔





