
پاکستان میں ٹرمپ کے غزہ منصوبے پر سیاسی اور عوامی ردِعمل
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کے لیے پیش کیے گئے نئے امن منصوبے پر پاکستان کی حکومت اور سیاسی جماعتوں کے ردِعمل میں اختلاف نظر آیا ہے۔ حکومت نے اس منصوبے کو خطے میں امن کے لیے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے جبکہ اپوزیشن اور مذہبی جماعتوں نے اسے فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کے منافی قرار دیا ہے۔
حکومت کا محتاط خیرمقدم
پیر کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’’ایکس‘‘ پر ایک پوسٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کے اس منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہیں جس کا مقصد غزہ میں جنگ کے خاتمے کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ فلسطینی عوام اور اسرائیل کے درمیان پائیدار امن خطے میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے ناگزیر ہے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے پر پاکستان نے تحفظات ظاہر کر دیے۔ وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر 8 مسلم ممالک کی تجویز کردہ ترامیم شامل نہ کی گئیں تو پاکستان منصوبے کی حمایت نہیں کرے گا۔انہوں نے واضح کیا کہ یہ منصوبہ امریکا کی جانب سے پیش کیا گیا ہے اور پاکستان اس کا حصہ نہیں۔ ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کچھ اہم نکات تجویز کیے ہیں جن کی شمولیت ضروری ہے۔ٹرمپ نے قبل ازیں دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر منصوبے کی مکمل حمایت کر رہے ہیں، تاہم اسلام آباد نے اس تاثر کو مسترد کر دیا۔
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے کہا کہ یہ منصوبہ “امن کے لیے نادر موقع” ہے اور پاکستان اس عمل میں فعال کردار ادا کرے گا، تاہم انہوں نے اسرائیلی بستیوں کی توسیع اور مشرقی یروشلم کے تنازع پر سخت تحفظات ظاہر کیے۔
اپوزیشن اور مذہبی جماعتوں کا شدید ردِعمل
پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی قیادت نے حکومت کے مؤقف کی مخالفت کی ہے۔ جماعتِ اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ٹرمپ کا منصوبہ فلسطینی عوام کے ساتھ ایک اور ناانصافی ہے اور اسے قبول کرنا مظلوموں کے ساتھ غداری کے مترادف ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے منصوبے کو “اسرائیلی توسیع کا فارمولا” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو شامل نہیں کیا گیا، اس لیے اسے کسی طور قبول نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان تحریکِ انصاف نے بیان دیا کہ کوئی بھی منصوبہ فلسطینی عوام کی رضامندی کے بغیر پائیدار نہیں ہو سکتا اور حکومت کو واشنگٹن کی خواہشات کے بجائے اسلامی دنیا کے اجتماعی مؤقف کے مطابق چلنا چاہیے۔
عوامی اور سماجی ردِعمل
سوشل میڈیا پر بھی پاکستان میں اس منصوبے پر ملا جلا ردِعمل دیکھنے کو ملا۔ کئی صارفین نے اسے ایک نئے سفارتی فریب سے تعبیر کیا جبکہ کچھ نے امید ظاہر کی کہ اس سے خطے میں خونریزی کم ہو سکتی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ “امن کے لیے کسی بھی قدم کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے لیکن یہ فلسطینی عوام کی مرضی اور انصاف پر مبنی ہونا چاہیے۔”
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت کا محتاط مؤقف دراصل خطے میں بدلتے ہوئے تعلقات اور امریکی اثر و رسوخ کو مدِنظر رکھ کر اختیار کیا گیا ہے۔ تاہم داخلی سیاسی دباؤ اور مذہبی جماعتوں کی مخالفت کے باعث اسلام آباد کے لیے اس منصوبے کی کھل کر حمایت کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
حکومتِ پاکستان نے منصوبے کو امن کی جانب ایک قدم قرار دیا مگر مشروط حمایت کی۔اپوزیشن اور مذہبی جماعتوں نے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے اسے فلسطینی عوام کے ساتھ ناانصافی کہا۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کے لیے خارجہ پالیسی اور داخلی سیاسی دباؤ کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک چیلنج بن سکتا ہے۔