
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک ) وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے نیویارک میں منعقدہ عرب-اسلامی سربراہی اجلاس میں شرکت کی، جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کی میزبانی میں ہوا۔ اجلاس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکیہ، مصر، اردن، پاکستان انڈونیشیا سمیت کئی مسلم ممالک کے سربراہان اور وزرائے خارجہ شریک ہوئے۔
فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی اسرائیلی فوجی کارروائی کے نتیجے میں اب تک 65 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ غزہ کا بیشتر بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے اور وہاں کے عوام شدید انسانی بحران کا شکار ہیں۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم غزہ کی جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں اور شاید ابھی اسے ختم کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ گروپ دنیا کے کسی اور گروپ سے بہتر انداز میں اس مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور مسلم ممالک اس بحران کو ختم کرنے میں منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔
قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیا کی نظریں امریکی صدر پر ہیں کہ وہ اس جنگ کو ختم کریں اور غزہ کے عوام کی مدد کریں۔ انہوں نے کہا کہ حالات نہایت سنگین ہیں اور اسی لیے ہم سب یہاں جمع ہوئے ہیں تاکہ جنگ کو روکا جا سکے اور یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنایا جا سکے۔
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اجلاس سے قبل قطر کے امیر، اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم اور انڈونیشیا کے صدر پربوو سبینتو سے ملاقات کی۔ دفترِ وزیراعظم کے مطابق انہوں نے غیر رسمی طور پر صدر ٹرمپ سے بھی گفتگو کی اور عالمی تنازعات کے حل میں ان کی کوششوں کو سراہا۔ وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ کا مثبت کردار دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے نہایت اہم ہے اور پاکستان خطے میں امن کے لیے ہر فورم پر اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ غزہ میں انسانی بحران فوری طور پر ختم ہونا چاہیے اور عالمی برادری فلسطینی عوام کے حق میں فیصلہ کن اقدامات کرے۔
یہ اجلاس ایسے وقت میں ہوا ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران واشنگٹن پر بڑھتی ہوئی عالمی برہمی واضح ہو رہی ہے۔ امریکہ کے کئی قریبی اتحادی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں، جو صدر ٹرمپ کی مشرقِ وسطیٰ پالیسی کے لیے ایک بڑا امتحان تصور کیا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی ماہرین کے مطابق اس اجلاس کی اہمیت اس بات میں ہے کہ پہلی بار امریکہ اور مسلم ممالک نے مشترکہ طور پر جنگ بندی کے لیے لائحہ عمل پر بات کی۔ مشرق وسطیٰ کے ماہر پروفیسر جیمز میتھیوز کے مطابق غزہ میں ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے اور اگر امریکہ اور مسلم دنیا مشترکہ مؤقف اپنائیں تو اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ عرب تجزیہ کار ڈاکٹر خالد عبدالرزاق کے مطابق فلسطین کا مسئلہ اب صرف مسلم دنیا کا نہیں رہا بلکہ عالمی سیاست کا سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے، اور اگر اس کا فوری حل نہ نکالا گیا تو پورا خطہ عدم استحکام کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
پاکستانی ماہرِ خارجہ پالیسی ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس پاکستان کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی حمایت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سفارتی پوزیشن کو عالمی سطح پر مزید مضبوط کر سکے۔