
وزیرِاعظم شہباز شریف اس ہفتے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں جہاں پاکستان نہ صرف فلسطین کے مسئلے پر اپنی روایتی پوزیشن کو اجاگر کرے گا بلکہ ترقی، ماحولیاتی تبدیلی اور مصنوعی ذہانت جیسے عالمی موضوعات پر بھی اپنی شمولیت کو نمایاں بنانے کی کوشش کرے گا۔
وزیراعظم کی سب سے اہم مصروفیت منگل 23 ستمبر کو امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی میزبانی میں ہونے والی اس مشترکہ ملاقات کو قرار دیا جا رہا ہے جس میں پاکستان سمیت سعودی عرب، ترکی، قطر، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا اور مصر کے رہنما شریک ہوں گے۔ یہ اجلاس اسلامی دنیا کے مؤقف کو امریکی صدر کے سامنے یکجا کرنے کی ایک بڑی کوشش سمجھا جا رہا ہے۔ اسی روز وہ چینی وزیرِاعظم کی زیرِ صدارت ترقیاتی کانفرنس اور عالمی رہنماؤں کے اعزاز میں امریکی صدر کی جانب سے منعقدہ استقبالیے میں بھی شریک ہوں گے، جو پاکستان کے لیے سفارتی توازن کے اظہار کا موقع ہے۔
فلسطین کے مسئلے پر وزیراعظم آج پیر کے روز دو ریاستی حل کی کانفرنس میں شرکت کریں گے اور منگل کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسرائیلی جارحیت پر ممکنہ بریفنگ میں بھی شامل ہوں گے۔ یہ دونوں سرگرمیاں پاکستان کی فلسطینی عوام کے ساتھ وابستگی کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا موقع دیں گی۔
وزیرِاعظم کی بدھ کی ملاقات بل گیٹس کے ساتھ پاکستان میں صحت و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے امکانات سے جڑی ہے، جبکہ ماحولیاتی کانفرنس اور مصنوعی ذہانت پر مباحثہ پاکستان کے عالمی موضوعات میں کردار کو نمایاں کریں گے۔
جمعہ 26 ستمبر کو وزیراعظم شہباز شریف اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے جس میں ان کا ایجنڈا فلسطین، خطے کی سلامتی، معیشت اور ماحولیاتی مسائل پر مرکوز ہونے کا امکان ہے۔ ان کا خطاب اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے بعد ہوگا، جس سے ان کے مؤقف کو مزید توجہ ملنے کا امکان ہے۔
سفارتی حلقے سمجھتے ہیں کہ وزیرِاعظم کے ممکنہ رابطے چین، اٹلی، کینیڈا، ایران، قطر اور یورپی یونین کی قیادت کے ساتھ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تنوع اور عالمی اداروں کے ساتھ روابط کو مضبوط کرنے کے اشارے ہیں۔