
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) طالبان حکومت ،جو خود کو امارات اسلامی کہلاتی ہے، نے ایک نئے حکم نامے کے تحت تقریباً 679 کتب کو مسئلہ دار قرار دے کر یونیورسٹیوں کے نصاب سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں سے تقریباً 140 کتابیں خواتین مصنفات کی ہیں۔
یہ فیصلہ طالبان وزارت تعلیم کے تحت قائم کردہ ایک کمیٹی کی سفارش پر کیا گیا ہے، جو جامعات میں اسلامی شریعت سے ہم آہنگ نصاب کی تیاری کے لیے قائم کی گئی ہے۔ طالبان حکام کا مؤقف ہے کہ یہ کتب اسلامی اصولوں اور سرکاری پالیسیوں سے متصادم ہیں، اور ان میں بعض تصانیف کو “مغربی نظریات کے فروغ” کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔
اس حکم نامے کے تحت افغانستان کی جامعات کو 18 تعلیمی مضامین کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔ ان مضامین میں انسانی حقوق، جنسی ہراسانی، خواتین کے مطالعے، صنفی مساوات، اور خواتین کی کمیونیکیشن میں شرکت جیسے موضوعات شامل ہیں — جو کہ عالمی سطح پر عصری تعلیم کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں۔
یہ پابندی خاص طور پر ان کتابوں اور مضامین پر لگائی گئی ہے جو طالبان کے نزدیک ”اسلامی شریعہ“ اور حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہیں، یا جن کا مواد غیر اسلامی/مخالف نظریات پر مبنی سمجھا جاتا ہے۔
طالبان وزارت تعلیم کی جانب سے معاہدہ کرنے والی کمیٹی نے یہ اقدامات اسلامی شرعہ کے مطابق نصاب کی بحالی اور غیر منافی شرع موافق مواد فراہم کرنے کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کیے ہیں۔
تعلیمی اور انسانی حقوق کے حلقوں میں شدید تشویش
افغانستان اور بیرون ملک تعلیمی ماہرین، اساتذہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے طالبان حکومت کے اس اقدام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف علمی آزادی پر حملہ ہے بلکہ خواتین کی آواز کو منظم طریقے سے خاموش کرنے کی کوشش بھی ہے۔
ایک افغان خاتون پروفیسر، جن کا نام سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ظاہر نہیں کیا جا رہا، نے اردو انٹرنیشنل سے بات کرتے ہوئے کہا:
“یہ صرف کتابوں پر پابندی نہیں، بلکہ ہماری سوچ، آواز اور وجود پر پابندی ہے۔ وہ ہمیں تعلیم سے دور کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہم صرف خاموش تماشائی بن کر رہ جائیں۔”
خواتین کی اعلیٰ تعلیم پہلے ہی معطل
واضح رہے کہ طالبان حکومت نے گزشتہ برس خواتین کے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی تھی، جس کے بعد ملک بھر کی جامعات میں ہزاروں طالبات کی تعلیم کا مستقبل غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو چکا ہے۔ اب اس نئے اقدام سے تعلیمی آزادی اور تنقیدی سوچ کو مزید محدود کر دیا گیا ہے۔