
Reports of forced deportation of Muslims in India come to light Photo- The Guardian
برطانوی اخبار (دی گارڈین )کی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت مسلمان شہریوں کو غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش ڈی پورٹ کر رہی ہے، رپورٹس کے مطابق، حالیہ ہفتوں میں بھارتی پولیس نے ملک بھر سے ہزاروں ایسے افراد کو گرفتار کیا ہے، جن پر شبہ ہے کہ وہ بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پر بھارت آئے ہیں ۔ ان گرفتارافراد میں بڑی تعداد مسلمانوں کی بتائی جا رہی ہے۔
حکومت کے اس اقدام پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گرفتار کیے جانے والے کئی افراد کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے ہی سرحد پار مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش بھیج دیا گیا، جبکہ ان ملک بدر کیے گئے افراد میں بھارتی شہری بھی شامل ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق، جو افراد اس جبری ملک بدری کے خلاف مزاحمت دکھاتے ہیں یا اپنی شہریت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس کی جانب سے گن پوائنٹ پر سرحد پار بھیج دیا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں بلکہ ملک میں جاری مسلم مخالف رویوں کو مزید ہوا دے سکتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق حالیہ دنوں میں بھارت نے تقریباً 200 افراد کو زبردستی بنگلہ دیش بھیجا، جبکہ بنگلہ دیشی بارڈر فورس نے انہیں یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ وہ بھارتی شہری ہیں۔ جس کے بعد ان میں سے کئی افراد کو اپنے گھروں تک پہنچنے کے لیے میلوں پیدل چلنا پڑا۔
بنگلہ دیشی انسانی حقوق کی تنظیم اودھیکار سے وابستہ محقق تسکین فہمینہ کا کہنا ہے کہ، بھارت مسلمانوں اور غریب طبقے کے لوگوں کو زبرد ستی سرحد پار بھیج رہا ہے جو کہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے بھارت کو اس معاملے پر متعدد خطوط لکھے ہیں کہ لوگوں کو بغیر کسی جانچ اور منظوری کے سرحد پار نہ بھیجا جائے، مگر بھارتی حکام کی جانب سے تاحال کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
ان متاثرین میں 62 سالہ جسمانی طور پر معذور حذیرہ خاتون بھی شامل تھیں، جنہیں 25 مئی کو پولیس نے حراست میں لے کر دوسرے 14 مسلمانوں کے ساتھ ایک وین میں بٹھا کر آدھی رات کو زبردسستی سرحد پار بھیج دیا ۔حذیرہ کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا گیا ، جب ہم نے احتجاج کیا کہ ہم بھارتی شہری ہیں تو ہمیں دھمکی دی گئی کہ اگر سرحد پار نہ کی تو گولی مار دیں گے ۔ بنگلہ دیشی حکام نے انہیں عارضی کیمپ میں رکھا، لیکن ان کی بھارتی شہریت ثابت ہونے پر انہیں واپس بھارت بھیج دیا گیا۔ خاتون کا کہنا تھا کہ واپسی کا سفر خوفناک تھا، ہمیں جنگلات اور دریاؤں سے گزرنا پڑا۔ ہمیں لگا کہ اگر بھارتی فورسز نے ہمیں دیکھا تو وہ ہمیں مار ڈالیں گے، بلآخر 31 مئی کو وہ بمشکل اپنے گاؤں پہنچیں۔
جس پر حذیرہ خاتون کی بیٹی جورینا بیگم کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے تمام دستاویزات موجود ہیں کہ ہمارا خاندان نسلوں سے بھارت میں مقیم ہے پھر ماں کو کیوں بنگلہ دیش بھیجا گیا۔

Photo – The Guardian
ان واقعات کا تعلق بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے “غیر قانونی بنگلہ دیشیوں” کے خلاف جاری کریک ڈاؤن سے جوڑا جا رہا ہے، جو کشمیر میں پہلگام حملے کے بعد تیز کر دیا گیا ہے۔ اس حملے میں 25 ہندو سیاح مارے گئے ، جس کے بعد بی جے پی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ تمام غیر ملکیوں کو بھارت سے نکال دے گی اور پھر مئی میں آپریشن سندور کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر سے مشتبہ افراد کو گرفتار یاں شروع کردی گئیں ۔
بھارت میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنے 11 سالہ دور اقتدار میں مسلمانوں کو نشانہ بنا تی آرہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے اپنے “ہندو قوم پرست ایجنڈے” کے تحت مسلمانوں کو ہراساں کیا، ان سےووٹ کا حق چھینا، اور انہیں ملک بدر کرنے کی کوشش کی۔
شمال مشرقی ریاست آسام میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حکومت نے ان لوگوں کو ملک بدر کرنا شروع کر دیا ہے، جو نسلوں سے بھارت میں آباد ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، حالیہ دنوں میں 100 سے زائد مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جن کے بارے میں کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں ۔
آسام میں برسوں سے ایک امتیازی پالیسی جاری ہے جس کے تحت مسلمانوں کو “غیر ملکی ٹربیونلز” کے سامنے پیش ہو کر اپنی شہریت ثابت کرنی پڑتی ہے۔
اگر کوئی یہ ثابت نہ کر سکے کہ وہ بھارت میں پیدا ہوا یا 1971 سے پہلے آیا، تو اسے حراستی مراکزمیں ڈال دیا جاتا ہے، ، جبکہ ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے افراد کواس عمل سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔
بین الاقوامی ادارے بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک پر گہری تشویش کا اظہار کر چکے ہیں ان کا مؤقف ہے کہ ان سخت گیر پالیسیوں کا مقصد خاص طور پر مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا اور ملک سے بے دخل کرنا ہے ،لیکن بی جے پی حکومت اپنی پالیسیوں کو “قومی سلامتی” کے لیے ضروری قرار دیتی ہے۔
بی جے پی کے سخت گیر وزیر اعلیٰ ہمنتا سرما نے اس ہفتے اعلان کیا کہ ریاست نے پالیسی بنا لی ہے کہ تمام “غیر قانونی غیر ملکیوں” کو فوراً نکالا جائے گا، اور یہ عمل مزید تیز کر دیا جائے گا۔
اس پالیسی کا نشانہ بننے والوں میں آسام کی 67 سالہ ضعیف اور بیمار خاتون ملیکا بیگم بھی شامل ہیں، جنہیں پولیس نے 25 مئی کو حراست میں لیا، اور دو دن بعد 20 مسلمانوں کے ایک گروپ کے ساتھ رات کی تاریکی میں بنگلہ دیش بھیج دیا گیا۔
ملیکا بیگم نے فون پر بتایا کہ انہیں سرحد پر بی ایس ایف اہلکاروں نے بندوق کی نوک پر سرحد پار کرنے پر مجبور کیا، حالانکہ وہ چلنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔
ملیگا بیگم کے بیٹے عمران علی کا کہنا ہے:
“میری ماں کے پاس، اور ہمارے پورے خاندان کے پاس بھارتی شہریت کے قانونی ثبوت موجود ہیں۔ اس کی (ملیگا بیگم) ملک بدری غیر قانونی ہے۔ مگر اب ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم اسے واپس کیسے لائیں۔ وہ بہت بیمار ہے۔”
ملیکا بیگم اب بھی بنگلہ دیش کے ایک سرحدی گاؤں میں پھنسی ہوئی ہیں۔ ان کے اہل خانہ اور انسانی حقوق کے کارکن سخت پریشان ہیں۔
جب میڈیا نے آسام پولیس اور بی ایس ایف سے اس معاملے پر تبصرہ مانگا، تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
انسانی حقوق کے ادارے اس صورت حال کو بھارت کے سیکولر آئین اور بین الاقوامی انسانی قوانین کے خلاف قرار دے دیتے ہوئے عالمی برادری سے نوٹس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔
حالیہ ہفتوں میں گجرات پولیس نے 6,500 سے زائد افراد کو “مشتبہ بنگلہ دیشی شہری” قرار دیتے ہوئے گرفتار کیا۔لیکن بعد میں ان میں سے 450 افراد ہی غیر قانونی شہری نکلے۔
گزشتہ ہفتے ممبئی پولیس نے چار مسلمانوں کو گرفتار کر کے بنگلہ دیش بھیجا، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ سب مغربی بنگال کے مزدور تھے، یعنی بھارتی شہری۔
بنگلہ دیشی بارڈر فورس نے انہیں واپس کر دیا۔
بنگلہ دیش کا ردِعمل
بارڈر گارڈ بنگلہ دیش کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل محمد اشرف الزمان صدیقی نے بھارت کی پالیسی کو “انسانی طرز حکمرانی سے انحراف” قرار دیا۔
انہوں نے کہا:
“لوگوں کو جنگلوں میں چھوڑ دینا، عورتوں اور بچوں کو دریاؤں یا سمندروں میں دھکیل دینا انسانیت کے اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔”
انہوں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس غیر انسانی پالیسی کو فوری طور پر بند کرے۔