مصری حکومت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے، جس کے تحت غزہ کی پٹی سے 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو بے دخل کر کے وہاں امریکی کنٹرول قائم کرنے اور اسے ایک بین الاقوامی تفریحی مقام میں تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
مصری ایوان صدر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی عوام کی جبری بے دخلی کا کوئی بھی منصوبہ قبول نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اس سے فلسطینی کاز کو نقصان پہنچے گا اور خطے کی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہو گا۔
اس منصوبے کے خلاف مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے مصر 4 مارچ کو عرب لیگ کے ایک خصوصی اجلاس کی میزبانی کرے گا، جس میں فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو روکنے کے اقدامات پر غور کیا جائے گا۔ اجلاس میں مصر اور اردن سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ بے دخل ہونے والے فلسطینیوں کو اپنے ہاں بسائیں، لیکن دونوں ممالک پہلے ہی قومی سلامتی کے خدشات کے پیش نظر اس مطالبے کو مسترد کر چکے ہیں۔
ریاض میں خلیجی ریاستوں، مصر اور اردن کے رہنماؤں کا اجلاس بھی ہوا، جس میں اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ بعض اطلاعات کے مطابق مصر نے ایک تجویز دی ہے کہ عرب ممالک تین سالوں میں 20 بلین ڈالر کی امداد فراہم کریں، تاہم اس حوالے سے کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا۔
فلسطینی عوام کو خدشہ ہے کہ اگر یہ منصوبہ نافذ ہو گیا، تو یہ 1948 کے “نقبہ” کی تاریخ دہرا دے گا، جب اسرائیل کے قیام کے وقت لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا تھا۔