اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں مدعو نہیں کیا گیا۔
امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ سیماب صفت شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کے تعلق سے یقینی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے باوجود چینی صدر شی جن پنگ کو ۲۰؍ جنوری ۲۰۲۵ء کی اپنی تقریب حلف برداری میں مدعو کرکے انہوں نے سنسنی پھیلا دی ہے۔ ۱۸۷۴ء کے بعد سے امریکہ کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ امریکی صدر کی حلف برداری میں غیر ملکی سفیروں اور سفارت کاروں کی شرکت معمول کی بات ہے لیکن کبھی کسی غیر ملکی سربراہ مملکت نے اس تقریب میں شرکت نہیں کی۔
شی جن پنگ کو مدعو کیا جانا بطور خاص اس لئے موضوع بحث ہے کہ یہی ٹرمپ چین کو سب سے بڑا خطرہ قرار دے چکے ہیں۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی پہلی میعاد صدارت میں ان سے وزیر اعظم نریندر مودی کی ذاتی دوستی جگ ظاہر تھی۔ مودی نے ۲۰۲۰ء میں ہندوستانی تارکین وطن کے ایک پروگرام میں ٹرمپ کیلئے غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے امریکی سرزمین پر ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار ‘‘کا نعرہ بلند کیا تھا جس کی مثال اس سے پہلے کبھی نہیں ملتی۔ کسی بھی غیر ملکی سربراہ مملکت کا امریکہ کے صدارتی الیکشن میں کسی امیدوار کی انتخابی مہم میں مدد کا یہ پہلا موقع تھا۔
تاہم ۲۰۲۴ء کے صدارتی الیکشن سے قبل مودی جب امریکی صدر جو بائیڈن کے زیر صدارت کواڈ سربراہی اجلاس میں شرکت کیلئے امریکہ روانہ ہونےوالے تھے تو ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ ہندوستانی وزیر اعظم ان سے ملنے آرہے ہیں لیکن دونوں کی ملاقات نہیں ہوئی۔ کیا مودی کی خارجہ پالیسی کے ماہرین نے یہ اندازہ لگانے کے بعد کہ عدالتی مقدمات کی بھرمار کے سبب ٹرمپ کا جیتنا ممکن نہیں ہے، انہیں ایسا مشورہ دیاتھا؟کیا انہیں وزیر اعظم کویہ ٹرمپ اور کملا ہیرس دونوں سے ملنے کا مشورہ نہیں دینا چاہئے تھا؟ کیا جان بوجھ کر ایسا نہیں کیاگیا ؟ مودی نے ٹرمپ کو الیکشن جیتنے پرفوراً مبارکباد پیش کی مگر اب صورتحال ویسی نہیں ہے؟
تاہم دوسری جانب وزیراعظم نریندرمودی نے ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکہ کے 47ویں صدر کی حیثیت سے حلف لینے پر مبارک باد پیش کی نریندر مودی نے ایکس پر لکھا، ’’میرے پیارے دوست، امریکہ کے 47 ویں صدر کے طور پر آپ کے تاریخی حلف پرمبارک باد!‘‘ میں ایک بار پھر ایک ساتھ مل کر کام کرنے، دونوں ملکوں کو فائدہ پہنچانے اور دنیا کے لیے ایک بہتر مستقبل کی تشکیل کا منتظر ہوں۔ اگلی کامیاب مدت کارکے لیے نیک خواہشات!
دوسری جانب ہندستانی وزیراعظم کے بجائے بھارت کی معروف کارباری شخصیت مکیش امبانی کو ٹرمپ کی تقریب میں خصوصی دعوت دی گئی جوبھارت کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے۔
اس موقع پر میڈیا نے مکیش امبانی کو بھی بھرپور کوریج دی جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے بذات خود مدعو کیا۔
دونوں کی پہلے بھی ملاقات ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ مکیش امبانی نے بھارت کی ایک بین الاقوامی تقریب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ کی بھی میزبانی کی تھی۔ اگر مجھے ٹھیک یاد ہو تو مکیش امبانی اور ان کے بھائی انیل امبانی کو بل کلنٹن اور جارج بش کی تقریب حلف برداری میں بھی مدعو کیا گیا تھا۔ دوسری جانب ہیلری کلنٹن نے امبانی کی شادی میں بھنگڑا بھی کیا تھا۔
امریکی سیاستدان پیسے کے حصول کی کوششوں میں رہتے ہیں اور اپنے حلف لینے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ مختلف مواقع پر اربوں ڈالرز جمع بھی کرچکے ہیں۔ اب یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ مشکل معاشی حالات میں، ٹرمپ کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کے لیے بھارت کتنی دولت خرچ کرسکتا ہے۔
یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ مودی کے قریبی سمجھے جانے والے دو بزنس ٹائیکونز امریکا کے ساتھ کتنے مختلف تعلقات میں ہیں۔ مکیش امبانی اور گوتم اڈانی وہ دو شخصیات تھیں جنہوں نے من موہن سنگھ کے بعد نریندر مودی کو انتخابات میں کامیابی دلوانے کی بھرپور کوشش کی اور وہ اس مقصد میں کامیاب رہے۔
دونوں نریندر مودی کے قریبی دوست سمجھے جاتے تھے لیکن پھر گوتم اڈانی کے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات خراب ہوگئے اور اب کرپشن اسکینڈل میں گرفتاری کے خوف سے وہ بھارت نہیں آرہے۔ مکیش امبانی روسی کرنسی ریوبل کی ادائیگی کرکے روسی تیل خرید رہے ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری تقریبِ حلف برداری میں مدعو کیا گیا۔