اردگان کا فلسطینیوں کی مدد کے لیے اسرائیل میں ترکی کی ممکنہ مداخلت کا اشارہ
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ترکیہ کےصدر طیب اردگان نے اتوار کو کہا کہ ترکی اسرائیل میں داخل ہو سکتا ہے جیسا کہ اس نے ماضی میں لیبیا اور نگورنو کاراباخ میں کیا تھا، تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کس قسم کی مداخلت کا مشورہ دے رہے ہیں۔
ترک صدر جو غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے سخت ناقد رہے ہیں، نے اپنے ملک کی دفاعی صنعت کی تعریف کرتے ہوئے ایک تقریر کے دوران اس جنگ پر بحث شروع کی۔
اردگان نے اپنے آبائی شہر ریز میں اپنی حکمران اے کے پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بہت مضبوط ہونا چاہیے تاکہ اسرائیل فلسطین کے ساتھ یہ مضحکہ خیز کام نہ کر سکے۔ جس طرح ہم کاراباخ میں داخل ہوئے، بالکل اسی طرح جیسے ہم لیبیا میں داخل ہوئے، شاید ہماسرائیل کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں۔
اردگان نے خطاب میں مزید کہا کہ ہمیں مضبوط ہونا چاہیے تاکہ ہم یہ اقدامات کر سکیں۔
اے کے پارٹی کے نمائندوں نے صدر اردگان کےان تبصروں کے بارے میں مزید تفصیلات طلب کرنے والوں کو جواب نہیں دیا۔اور اس معاملے پر اسرائیل نے بھی فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
تاہم ترک صدر ترکی کی طرف سے ماضی کے اقدامات کا حوالہ دیتے نظر آئے۔
واضح رہے کہ 2020 میں ترکی نے لیبیا کے قومی معاہدے کی اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کی حمایت میں فوجی اہلکار لیبیا بھیجے۔
لیبیا کے وزیر اعظم عبدالحمید الدبیبہ، جو طرابلس میں قومی اتحاد کی حکومت کے سربراہ ہیں، کو ترکی کی حمایت حاصل ہے۔
ترکی نے نگورنو کاراباخ میں آذربائیجان کی فوجی کارروائیوں میں کسی بھی براہ راست کردار سے انکار کیا ہے، لیکن گزشتہ سال کہا تھا کہ وہ اپنے قریبی اتحادی کی حمایت کے لیے فوجی تربیت اور جدید کاری سمیت “تمام ذرائع” استعمال کر رہا ہے۔