Friday, July 5, 2024
الیکشن 2024’’عقیدت کی سیاست‘‘: پاکستان میں پیروں، گدی نشینوں کی سیاست کا تصور...

’’عقیدت کی سیاست‘‘: پاکستان میں پیروں، گدی نشینوں کی سیاست کا تصور کیا

’عقیدت کی سیاست‘: پاکستان میں پیروں، گدی نشینوں کی سیاست کا تصور کب آیا اور کیا وقت کے ساتھ اس میں کمی آ رہی ہے؟

یہ منظر صوبہ پنجاب کے شہر جھنگ کا ہے۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی چند ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بیش قیمت گاڑیوں کے قافلے میں اپنے حلقہ انتخاب میں ووٹرز تک پہنچنے والے مخدوم فیصل صالح حیات جیسے ہی اپنی گاڑی سے اُترتے ہیں تو ووٹرز کی بڑی تعداد آگے بڑھ کر اُن کو خوش آمدید کہتی ہے۔

فیصل صالح حیات جھنگ کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 108 اور صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی 125 سے پاکستان مسلم لیگ ن کے نامزد امیدوار ہیں۔ انھوں نے لگ بھگ ایک ماہ قبل ہی (28 دسمبر 2023) پیپلز پارٹی کو دوسری مرتبہ خیرباد کہہ کر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی ہے۔

پاکستان میں جیسے جیسے عام انتخابات کی تاریخ قریب آ رہی ہے ویسے ویسے مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی جانب سے اپنی سیاسی سرگرمیوں اور الیکشن کی تیاریوں سے متعلق اس نوعیت کے سینکڑوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جا رہی ہیں۔

تاہم فیصل صالح حیات نامی فیس بُک پیج (جس کے ایک لاکھ 22 ہزار فالوروز ہیں) پر پوسٹ کی گئی اس ویڈیو میں جو بات دوسرے امیدواروں کی جانب سے پوسٹ کرنے والی ویڈیوز سے مختلف ہے وہ یہ ہے کہ انھیں کارنر میٹنگ میں خوش آمدید کہنے والے اُن سے ملتے وقت تعظیم میں اپنی کمر کو تھوڑا خم دیتے ہیں، ایک ہاتھ ان کے ہاتھ میں (سلام کی غرض سے) دیتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے تعظیماً ااُن کا گھٹنا چھوتے ہیں۔

شاید اس تعظیم کی ایک وجہ یہ ہے کہ مخدوم فیصل صالح حیات آئندہ ماہ ہونے والے الیکشن میں مسلم لیگ کے امیدوار ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ایک معروف گدی ’شاہ جیونہ‘ کے گدی نشین بھی ہیں۔

اور یہ معاملہ فیصل صالح حیات تک محدود نہیں بلکہ ووٹرز کی جانب سے اس نوعیت کا ’خوش آمدید‘ پاکستان کے ان تمام ’پیر گھرانوں‘ سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو میسر آتا ہے جو آئندہ ماہ ہونے والے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

یہ معاملہ صرف عام ووٹرز یا دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے سادہ لوح افراد تک بھی محدود نہیں بلکہ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ’پِیروں‘ اور بڑی گدیوں کا ’روحانی غلبہ‘ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ پر بھی برابر رہا ہے۔

سنہ 2018 کے وہ مناظر تو آپ کو یاد ہی ہوں گے جب عمران خان پاکپتن کی روحانی گدی پر حاضری دیتے پائے جاتے تھے اور محض عمران خان ہی نہیں ، بینظیر بھٹو ہوں، یا اُن کے شوہر اور سابق صدر آصف علی زرداری، ایوب خان ہوں یا ذوالفقار علی بھٹو یا پھر میاں نواز شریف، اِن بڑے سیاست دانوں پر پیروں کا روحانی غلبہ رہا ہے۔

اور سیاسی ماہرین کے مطابق جب بڑے سیاست دان پیروں کے عقیدت مند رہے ہوں تو وہاں عام سیاسی کارکنوں کا عقیدت کی سیاست کے زیرِ اثر رہنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

8 فروری 2024 کو ہونے والے الیکشن میں بھی بہت سے گدی نشین یا ان کے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے مختلف قومی و صوبائی حلقوں میں سیاسی جماعتوں کے امیدوار ہیں تاہم پاکستان کی بڑی گدیوں اور اور ان کے الیکشن 2024 میں اثرات کو جاننے سے قبل ہم ماضی میں چل کر دیکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ کتنا پرانا ہے۔
عقیدت کی سیاست
عقیدت کی سیاست
اگر برصغیر کی مسلم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں صوفیا کے مزارات دیہی مسلم ثقافت میں کلیدی حیثیت کے حامل رہے ہیں، یہ مزارات جو ابتدا میں مذہبی شناخت رکھتے تھے رفتہ رفتہ سیاسی قوت کی علامت بنتے گئے اور بعض علاقوں میں تو دیہی سیاسی نظام اِن مزارات کا مرکز و محور بن کر رہ گیا۔

عام لوگوں کی عقیدت کو اِن مزارات سے جڑے خاندانوں نے سیاسی طاقت کے حصول کے لیے بھی استعمال کیا۔ تاریخی حوالوں کے مطابق مغل بادشاہت نے معروف مزارات سے منسلک خاندانوں کو مراعات سے نوازا اور جب برصغیر پر انگریزوں کی حکمرانی کا دور آیا تو ایسے خاندانوں کی اہمیت مزید بڑھ گئی اور ان کو دی جانے والی مراعات و جاگیروں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

برصغیر میں مزارات اور گدیوں کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے معروف مؤرخ ڈیوڈگلمارٹن کے مطابق ’مغل عہد کے دوران ریاست نے بہت سے اہم سجادہ نشینوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کر لیے۔ مغلوں نے ملتان میں اپنے مقامی گورنروں کے طور پر خدمات انجام دینے کے لیے ہمیشہ سجادہ نشینوں کے ایک خاندان (قریشی خاندان) پر ہمیشہ بھروسہ کیا۔‘

تاہم مغل بادشاہت کے زوال کا خانقاہی سیاست کے علمبرداروں پر کوئی اثر نہ پڑا۔ ڈیوڈ گلمارٹن کے مطابق ’مغلوں کے زوال کے بعد بہت سے سجادہ نشینوں نے اپنے آپ کو طاقتور مقامی سیاسی شخصیات کے طور پر مستحکم کر لیا۔‘

آئی اے ٹالبوٹ اپنے تحقیقی مقالے ’دی 1946 پنجاب الیکشن‘ میں لکھتے ہیں کہ پیروں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ دیہات میں ان کے متعدد پیروکاروں پر یہ بے پناہ روحانی اور دنیاوی غلبہ رکھتے تھے۔ لیگ نے اپنی سب سے بڑی انتخابی کامیابی ملتان، جھنگ، جہلم اور کرنال جیسے اضلاع میں حاصل کی، جہاں اسے سرکردہ پیروں اور سجادہ نشینوں کی حمایت حاصل تھی۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’(سنہ 1923 میں قائم کی جانے والی) یونینسٹ پارٹی نے 1937کے انتخابات میں چودہ سرکردہ پیروں اور سجادہ نشینوں سے حمایت کے لیے رابطہ کیا۔‘ اُن میں سے چند قابلِ ذکر سجادہ نشین اور درگاہیں یہ تھیں: درگاہ پاکپتن کے سجادہ نشین، پیر تونسہ شریف، پیر سیال، پیر گولڑہ، پیر فضل شاہ، پیر مکھڈ، پیر سلطان باہو، پیر مُرید حسین قریشی اور پیر جماعت علی شاہ وغیرہ۔

درگاہ جلا ل پور شریف کی گدی سے وابستہ سید شمس حیدر بتاتے ہیں کہ ’یونینسٹ کو چونکہ اس پہلو کا ادراک تھا کہ درگاہوں کا دائرہ اثر وسیع ہے تو وہ ایک بڑی جماعت ہونے کی وجہ سے سیاسی حمایت کے لیے سجادہ نشینوں سے رابطہ کرتی تھی۔‘

اور دیگر عوامل کے علاوہ سجادہ نشینوں کی اِس حمایت کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1937کے انتخابات میں دیہی مسلم نشستیں جن کی تعداد 75 تھی، اُس میں 73 نشستیں یونینسٹ پارٹی نے جیت لیں۔
عقیدت کی سیاست

درگاہوں کی جانب سے آل انڈیا مسلم لیگ کے حق میں فتوے

اور یہ سلسلہ یہاں رُکا نہیں۔ مسلم لیگ نے 1945 کے صوبائی انتخابات سے قبل مذہبی ووٹ بینک رکھنے والے افراد کی فہرست تیار کی جس کو ’مشائخ کمیٹی‘ کا نام دیا گیا اور مذہبی ووٹ بینک کو حاصل کرنے کے لیے کوششیں تیز کیں۔ مسلم لیگ نے اہم خانقاہوں کے سجادہ نشینوں تک رسائی حاصل کر کے اُن سے مسلم لیگ کے حق میں ووٹ حاصل کر نے کے لیے فتوے بھی حاصل کیے۔

اس ضمن میں پہلا فتویٰ حضرت شاہ نور جمال کی خانقاہ کے سجادہ نشین سید فضل شاہ کی جانب سے دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر عبد الغنی کی کتاب ’امیر حزب اللہ‘ کے مطابق ’31 دسمبر 1945میں جلال پور شریف میں پنجاب کے ایک ہزار بااثر لوگ جمع ہوئے۔ ان میں 24 لوگ انتخابی حلقوں کے حامل تھے۔ سب نے اس پر اتفاق کیا کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں مسلم لیگ کے اُمیدوار کو کامیاب کروائیں گے۔‘

اُس زمانے میں مقامی سیاست میں سجادہ نشینوں کا اثر و رسوخ کس حد تک قائم ہو چکا تھا، اس ضمن میں ڈیوڈ گلمارٹن لکھتے ہیں کہ ’1944میں یونینسٹ پارٹی سے قطع تعلقی کے بعد جلال پور کے پیر فضل حسین شاہ کے ماموں راجہ غضنفر علی خان کے ہمراہ مقامی دھڑا مسلم لیگ میں شامل ہو گیا۔‘

واضح رہے کہ راجہ غضنفر علی خان نے 1937 کا الیکشن آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے لڑا تھا مگر انتخابات کے بعد یہ یونینسٹ پارٹی میں چلے گئے اور بعدازاں یہ پھر مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔اس گدی کی سیاست سے وابستہ سید شمس حیدر کہتے ہیں کہ ’راجہ غضنفرعلی خان کا یونینسٹ میں چلے جانا ایک سیاسی داؤ تھا۔‘

گدیوں کی جانب سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا سلسلہ اُس وقت جاری ہو گیا تھا۔

آل انڈیا مسلم لیگ اور قبل ازیں یونینسٹ پارٹی نے جن پیروں اور درگاہوں کی حمایت حاصل کرکے سیاسی فضا کا دھارا بدلا تھا اُن پیر خاندانوں اور درگاہوں نے پاکستان کی انتخابی سیاست کو آگے چل کر بھی متاثر کیے رکھا۔ یونینسٹ اور بعدازاں آل انڈیا مسلم لیگ کے نزدیک جو اہمیت پیروں اور درگاہوں کی رہی ویسی ہی اہمیت ہر دَور کی بڑی سیاسی جماعتوں سمیت اسٹیبلشمنٹ کو بھی رہی۔

تاہم رواں صدی میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بعض گدیوں کا ووٹ بینک کم ہوا، بعض کا تقسیم اور کچھ گدیوں کی سیاست مکمل طور پر وقت کے ساتھ ختم ہو کر رہ گئی۔

خیبرپختونخوا سے درگاہ مانکی شریف، اٹک کی گدی مکھڈ شریف اور جہلم سے پیر فضل شاہ کی گدی کی سیاست کا دائرہ اثر تدریجاً کم ہوتا ہوتا اب بظاہر آخری سانسیں لے رہا ہے۔

الیکشن 2024 اور گدیوں کی سیاست
سنہ 1923میں یونینسٹ پارٹی کے قیام کے بعد اس خطے میں گدیوں اور سجادہ نشینوں کی سیاست ظہور پذیر ہوئی اور اب ٹھیک ایک صدی بعد پاکستان کے 12ویں عام انتخابات میں اُن گدیوں کی سیاست کس حد تک اثر پذیر ہے، یہاں اِس پہلو کا جائزہ لیتے ہیں۔

گیلانی خاندان: 1946کے انتخابات میں ملتان کے گیلانی اور قریشی خاندان آمنے سامنے تھے۔ اس وقت قریشی خاندان یونینسٹ پارٹی میں تھا۔ گیلانی خاندان کے یوسف رضا گیلانی 2008 کے الیکشن میں جیت کر وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔ سنہ 2018 کے انتخابات میں بھی سید یوسف رضا گیلانی اور اُن کے بیٹوں نے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔

آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات میں ملتان کے تین حلقوں سے گیلانی خاندان الیکشن لڑ رہا ہے۔ این اے 148 میں یوسف رضا گیلانی، این اے 151 میں علی موسیٰ گیلانی اور این اے 152 سے سید عبدالقادر گیلانی میدان میں اتریں گے۔

قریشی خاندان: قریشی خاندان کے سرپرست مُرید حسین کے بیٹا سجاد حسین قریشی قیامِ پاکستان سے چند ماہ قبل مسلم لیگ میں شامل ہوئے، اس سے قبل وہ یونینسٹ پارٹی کا حصہ تھے۔ سجاد حسین قریشی کے بیٹے شاہ محمود قریشی ماضی میں پاکستان کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں تاہم اس وقت وہ الیکشن سے باہر ہو کر جیل میں ہیں۔

شاہ محمود قریشی کے بیٹے مخدوم زین قریشی 2018 کے انتخابات میں ملتان کے حلقہ این اے 157 سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ بعد ازاں 2022 کے ضمنی الیکشن میں اسی حلقہ سے شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہربانو نے الیکشن لڑا تھا۔ 8 فروری کو ہونے والے الیکشن میں زین قریشی ملتان کے حلقہ این اے 150 اور مہر بانو قریشی حلقہ این اے 151 سے آزاد اُمیدوار کے طور پر الیکشن لڑیں گے۔

درگاہ جلال پور شریف: درگاہ جلال پور شریف کے موجودہ سجادہ نشین پیر سید انیس ہیں۔ سید انیس کے والد پیر برکات شاہ ماضی میں سینیٹر اور صوبائی وزیر رہے ہیں۔ اس خاندان کے سید نعمان شاہ نے سنہ 2018 کا الیکشن تحریکِ لبیک پاکستان کے پلیٹ فارم سے لڑا جبکہ اسی خاندان کے سید شمس حیدر 1993،1997 اور 2008 میں صوبائی اسمبلیوں کے ممبر رہے۔

اس وقت تاریخی طور پر اہم ترین گدی کا کوئی فرد قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن نہیں لڑ رہا۔ سید شمس حیدر مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے خواہاں تھے مگر ٹکٹ نہ ملی۔

سیال شریف: درگارہ سیال شریف کے غلام نصیرالدین سیالوی تین بار پنجاب اسمبلی کے رُکن اور اوقاف کے صوبائی وزیر رہے ہیں۔ اُن کے بیٹے غلام نظام الدین سیالوی بھی ایم پی اے رہے ہیں۔ نعیم الدین سیالوی، نظام الدین سیالوی کے بھائی ہیں اور وہ 2018 کا الیکشن پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر لڑ چکے ہیں۔ سنہ 1970 کے انتخابات میں اس درگاہ کی وجہ سے جمعیت علمائے پاکستان کو جھنگ سے تین قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے کا موقع ملا تھا۔ 8 فروری کے انتخابات میں نعیم الدین سیالوی صوبائی سیٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔

پیر آف تونسہ شریف: آل انڈیامسلم لیگ کی جانب سے بنائی گئی ’مشائخ کمیٹی‘ میں تونسہ شریف کے پیر نظام الدین تونسہ شریف بھی تھے۔ درگارہ خواجہ شاہ سلیمان (تونسہ شریف)کے موجودہ گدی نشین خواجہ عطا اللہ سلیمان ہیں۔ اس فیملی میں خواجہ شیراز ،خواجہ مدثر ،خواجہ داؤد سیاست میں ہیں۔ اس وقت خواجہ شیراز محمود تونسہ سے این اے 183 سے الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ خواجہ داؤد اور خواجہ مدثر بھی میدان میں ہیں۔

پیر آف مکھڈ: مکھڈ کے پیر محی الدین لال بادشاہ جو دربار غوثیہ کے گدی نشین تھے، نے 1951میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور ممبر منتخب ہوئے۔ پیر محی الدین کی سیاسی وفاداری دولتانہ گروپ کے ساتھ وابستہ رہی ہے۔ اس خاندان کے پیر سید عباس محی الدین ق لیگ اور پی ٹی آئی سے بھی وابستہ رہے اور یہ موجودہ گدی نشین ہیں۔

اس سوال پر کہ درگاہوں سے جڑی عقیدت کی سیاست وقت کے ساتھ ساتھ بڑھی یا کم ہوئی ہے؟ پیرسید عباس کا کہنا تھا کہ ’ہمارے مُریدین میں اضافہ ہوا۔ اگرچہ ہم صوبائی سیٹ تک محدود ہو چکے ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حلقہ بندیوں میں ہمارا حلقہ کٹ کر دوسرے حلقوں کا حصہ بن چکا ہے، جس کی وجہ سے ہمارا ووٹ تقسیم ہو گیا۔‘

درگاہ شاہ جیونہ: شاہ جیونہ درگاہ کی سیاسی حیثیت بہت اہمیت کی حامل ہے۔ سنہ 1946 کے انتخابات میں شاہ جیونہ خاندان کے کرنل عابد حسین مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے دستور ساز اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے۔ اگرچہ انھوں نے سیاست میں قدم 1937میں رکھا تھا مگر اُن کا سیاسی کردار 1945سے نمایاں ہوتا ہے۔ سیدہ عابدہ حسین، کرنل عابد حسین کی بیٹی ہیں اور فخر امام کی اہلیہ ہیں اور ان کا بیٹا عابد امام خانیوال کے حلقہ این اے 144سے الیکشن لڑ رہا ہے۔ درگاہ شاہ جیونہ کے گدی نشین سید فیصل صالح حیات اس وقت مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر جھنگ کے حلقہ این اے 108 اور پی پی 125سےالیکشن لڑ رہے ہیں۔

دربار حضرت سلطان باہو: درگاہ باہو سلطان گدی کی سیاست جھنگ میں کافی اپنا اثر رکھتی ہے۔ گذشتہ الیکشن میں بھی یہاں کی دو قومی اسمبلی کی نشستیں اسی درگاہ سے وابستہ افراد نے جیتی تھیں۔ موجودہ الیکشن میں اسی درگاہ کے صاحبزادہ محبوب سلطان جھنگ کے حلقہ این اے 108 اور صاحبزادہ امیر سلطان این اے 110 سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

درگاہ بھرچونڈی شریف: بھرچونڈی درگارہ کے میاں عبدالحق مٹھو نے پہلا الیکشن 1985 میں لڑا تھا۔

میاں عبدالحق مٹھو کے مطابق ’مجھے 1985 کے انتخابات میں اُتارنے والوں میں پیر پگاڑا اور غلام محمد مہر شامل تھے۔‘

میاں عبدالحق مٹھو نے 1988 اور 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم پر تھے۔ 2013 میں صوبائی سیٹ پر گدی نشین پیر عبدالخالق نے الیکشن میں حصہ لیا جبکہ 2018 کے ضمنی الیکشن میں اُن کے بیٹے میاں عبدالمالک نے حصہ لیا۔ سنہ 2018 کے انتخابات میں حصہ لینے والے میاں عبدالحق مٹھو اس وقت گھوٹکی کے حلقہ سے قومی اسمبلی کے اُمیدوار ہیں۔

پیر آف رانی: خیرپور پیروں کی سرزمین تصور ہوتی ہے۔ یہاں پیر خاندان سیاست کے سب سے بڑے کردار رہے ہیں۔ پیر آف رانی پور نے 1922 میں سکھر میں تحریکِ خلافت کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور 1946 میں مسلم لیگ کی حمایت کی۔

اس وقت خیر پور کے حلقہ این اے 204 پر پیر آف رانی پیر سید نیاز حسین شاہ الیکشن میں ہیں۔ این اے 203 پر پیر پگارا خاندان سے پیر سید صدرالدین شاہ راشدی اور پیر آف رانی پور پیر سید فضل علی شاہ جیلانی مدمقابل ہیں۔ پی ایس 28 پر پیرپگارا کے خاندان سے پیر سید اسماعیل شاہ راشدی اور پی ایس 31 سے سید راشد شاہ راشدی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

پیر آف ہالہ: پیر آف ہالہ مخدوم خاندان کی سروری جماعت ہے۔ اس جماعت کی درگاہ ضلع مٹیاری میں ہے۔ اس درگاہ سے تعلق رکھنے والے مخدوم امین فہیم پاکستان پیپلزپارٹی کے اہم رہنما رہے ہیں۔

اس وقت ان کے بیٹے مخدوم جمیل الزماں گدی نشین ہیں اور مٹیاری کے حلقہ این اے 216 میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر امیدوار ہیں۔ اس خاندن کے مخدوم محبوب زماں پی ایس 56 سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
اردو انٹرنیشنل

کیا وقت کے ساتھ ’عقیدت کی سیاست‘ کم ہوئی یا بڑھی؟
بی بی سی کے محمد صہیب سے بات کرتے ہوئے پاکستان کی انتخابی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ پیروں اور گدی نشینوں کا سیاست سے تعلق بہت پرانا ہے لیکن وقت کے ساتھ پیر گھرانوں نے اپنے آپ کو سیاست کے مطابق ڈھال لیا۔

’اب وہ صرف پیری مریدی پر انحصار نہیں کرتے بلکہ اب وہ اپنے ووٹرز کی خواہشات بھی مدِنظر رکھتے ہیں اور ترقیاتی منصوبوں پر بھی کام کرتے ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ پہلے مرید ووٹ لے کر گدی نشینوں کے پاس آتا تھا اب گدی نشینوں کو ووٹرز کے پاس جانا پڑتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان کی موجودگی میں کمی یا اضافہ نہیں ہوا، یہ اب بھی آپ کو پاکستان کی مختلف اسمبلیوں میں دکھائی دیتے ہیں اور گدی نشینوں اور پیروں کی موجودگی بتاتی ہے کہ انھوں نے اپنے آپ کو سیاسی اعتبار سے ڈھال لیا ہے۔

عالمی عدالت برائے انصاف اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی نسل کشی کے کیس کا فیصلہ کل سنائے گی

دیگر خبریں

Trending

The Latest Urdu News Updates

The Latest Urdu News Updates – Urdu International

0
The Latest Urdu News Updates In the fast-paced world of news, staying updated with the latest developments is crucial. Our platform, Urdu International, brings you...