
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک بار پھر احتجاج کیوں بھڑک اٹھا؟
عالمی خبر رساں ادارے “الجزیرہ “ کی ایک رپورٹ کے مطابق خطے میں مواصلاتی بلیک آؤٹ اور مہلک جھڑپیں؛ مظاہرین نے حکومت کے سامنے 38 مطالبات رکھ دیے، تشدد میں کم از کم 15 افراد ہلاک ہوئے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں جمعرات کو مسلسل چوتھے روز بھی مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری رہی۔ علاقے میں کشیدگی برقرار ہے جہاں احتجاج کے دوران کم از کم 15 افراد جن میں تین پولیس اہلکار بھی شامل ہیں ہلاک ہو گئے جبکہ مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درجنوں افراد زخمی ہوئے۔
وفاقی حکومت نے ایک مذاکراتی کمیٹی کو جمعرات کو مظفرآباد بھیجا تاکہ جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (جے اے اے سی) سے بات چیت کی جا سکے۔ یہ کمیٹی تاجروں اور سول سوسائٹی کے گروپوں کی نمائندہ تنظیم ہے اور عوامی غصے کی آواز کے طور پر ابھری ہے۔
سول سوسائٹی رہنما شوکت نواز میر کی قیادت میں جے اے اے سی نے 29 ستمبر سے خطے میں ہڑتال شروع کی جس نے آزاد جموں و کشمیر (اے جے کے) کے کئی اضلاع میں زندگی مفلوج کر دی۔
حکومت کی جانب سے 28 ستمبر سے مکمل مواصلاتی بلیک آؤٹ نافذ ہے، جس کے باعث شہری موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس سے محروم ہیں۔
مظفرآباد کی عموماً مصروف منڈیاں بند پڑی ہیں اور گلیوں سے ریڑھی بان اور پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہیں جس کے باعث خطے کے تقریباً 40 لاکھ باشندے شدید غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔
حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکام امن و امان بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی ’’پروپیگنڈا‘‘ اور ’’جھوٹی خبروں‘‘ سے گمراہ نہ ہوں جنہیں حکام نے ’’ایک مخصوص ایجنڈے‘‘ کا حصہ قرار دیا۔
یہ جے اے اے سی کی قیادت میں تیسرا بڑا احتجاج ہے جو پچھلے دو برسوں میں سامنے آیا۔ تنظیم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت کے ساتھ 38 نکاتی مطالبات پر اتفاق نہ ہونے کے باعث اس بار مظاہرے دوبارہ شروع ہوئے۔
احتجاج کب اور کیسے شروع ہوا؟
کشمیر کا پہاڑی وادی نما علاقہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم ہے اور 1947 میں آزادی کے بعد سے دونوں ممالک اس پر متعدد جنگیں لڑ چکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت پورے کشمیر کے دعوے دار ہیں جبکہ چین شمال کے دو چھوٹے حصے کنٹرول کرتا ہے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت حاصل ہے اور اس کا اپنا وزیراعظم اور قانون ساز اسمبلی ہے۔ اس کی آبادی تقریباً 40 لاکھ ہے (2017 کی مردم شماری کے مطابق)۔
موجودہ تحریک کی جڑیں مئی 2023 میں ہیں جب عوام نے بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں کے خلاف سڑکوں پر احتجاج شروع کیا۔ اسی دوران سبسڈی والے آٹے کی شدید قلت اور آٹے کی اسمگلنگ کے خلاف بھی شکایات سامنے آئیں۔
ستمبر 2023 میں مظفرآباد میں سیکڑوں کارکن جمع ہوئے اور باضابطہ طور پر جے اے اے سی تشکیل دی گئی۔
پہلا بڑا تصادم مئی 2024 میں ہوا جب مظاہرین نے ’’لانگ مارچ‘‘ کیا۔ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم پانچ افراد، جن میں ایک پولیس اہلکار بھی شامل تھا ہلاک ہوئے۔
یہ احتجاج اس وقت ختم ہوا جب وزیر اعظم شہباز شریف نے بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں کمی کے مطالبات مان لیے اور اربوں روپے کی سبسڈی فراہم کی۔
تاہم یہ سکون زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا۔ اگست 2025 میں جے اے اے سی نے اعلان کیا کہ وہ ایک اور احتجاجی تحریک شروع کرے گی، اس بار صرف معاشی مسائل ہی نہیں بلکہ سیاسی اصلاحات کا بھی مطالبہ کرے گی۔
مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں؟
جے اے اے سی کی طرف سے پیش کردہ تازہ چارٹر آف ڈیمانڈز میں 38 نکات شامل ہیں۔
اہم مطالبات میں شامل ہیں
عوام کے لیے مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات
بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں کا آغاز
صوبائی اسمبلی کے ڈھانچے میں تبدیلی
اعلیٰ سرکاری حکام کو حاصل ’’اشرافیہ مراعات‘‘ کا خاتمہ
یہ مطالبہ ماضی کے احتجاج میں بھی سرفہرست رہا ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ مئی 2024 کے احتجاج کے بعد حکومت نے ایک عدالتی کمیشن کے قیام کا وعدہ کیا تھا تاکہ وزیروں اور اعلیٰ حکام کو دی گئی مراعات کا جائزہ لیا جا سکے، لیکن یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔
وزیروں کو فراہم کی جانے والی مراعات میں دو سرکاری گاڑیاں، ذاتی عملہ، محافظ اور سرکاری کام کے لیے لامحدود ایندھن شامل ہیں۔
اس بار جے اے اے سی نے پہلی مرتبہ اسمبلی میں مہاجرین کے لیے مخصوص 12 نشستوں کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ نشستیں اُن خاندانوں کے لیے مختص ہیں جو 1947 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے، مگر اب یہ ایک طاقتور سیاسی گروہ بن چکا ہے جو ترقیاتی فنڈز پر قبضہ جمائے ہوئے ہے۔
چارٹر میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ 2023 اور 2024 کے مظاہروں کے دوران درج مقدمات ختم کیے جائیں، ٹیکس میں رعایت دی جائے، روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں اور سڑکوں، سرنگوں اور پلوں کے ذریعے خطے کو باقی پاکستان سے بہتر طور پر جوڑا جائے۔
تنظیم نے مظفرآباد اور میرپور میں بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قیام کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
حکومت کا ردِعمل
مقامی انتظامیہ نے مواصلاتی بلیک آؤٹ نافذ کیا اور تعلیمی ادارے غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیے ہیں۔
حکومت نے خطے میں امن قائم رکھنے کے لیے پیراملٹری فورسز اور پولیس کے اضافی دستے طلب کیے ہیں، جس پر جے اے اے سی نے اعتراض کیا ہے۔
جے اے اے سی کے رہنما شوکت نواز میر نے کہا کہ جب یہاں مقامی پولیس پہلے سے موجود ہے تو پاکستان کے دیگر علاقوں سے پیراملٹری فورس بلانے کی ضرورت نہیں تھی۔
اے جے کے کے وزیر خزانہ عبدالمجید خان نے کہا کہ حکومت نے پہلے دور کی زیادہ تر اقتصادی نوعیت کی شکایات دور کر دی ہیں، لیکن اس وقت دونوں فریقین کے درمیان اختلاف دو بڑے مطالبات پر ہے
مہاجرین کے لیے مخصوص 12 نشستوں کا خاتمہ
حکومتی اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات ختم کرنا
انہوں نے کہا کہ ان مسائل کو فوری طور پر حل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کے لیے آئینی اور انتخابی اصلاحات درکار ہیں۔
وزیر نے یہ بھی کہا’’خطے میں پہلے ہی ٹیکس بہت کم ہیں اور بجلی کے نرخ بھی کم ہیں۔ ہمارے ہاں کل ٹیکس دہندگان کی تعداد 5,000 سے بھی کم ہے، اس لیے مقامی محصولات محدود ہیں اور ہمیں کئی منصوبوں کے لیے وفاقی حکومت سے فنڈز لینے پڑتے ہیں۔‘‘
آگے کیا ہوگا؟
جمعرات کو حکومت اور جے اے اے سی کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا اور اگلا دور جمعہ کو ہوگا۔
دونوں فریق عوامی سطح پر مذاکراتی عمل کو کامیاب بنانے کی خواہش ظاہر کر رہے ہیں لیکن بار بار کے وعدوں اور بداعتمادی کے باعث رکاوٹیں برقرار ہیں۔
عبدالمجید خان نے کہا کہ جیسے ہی مذاکرات میں پیش رفت ہوگی، حکومت انٹرنیٹ اور موبائل سروس بحال کرے گی۔مذاکراتی ٹیم مظفرآباد میں موجود ہے، اس لیے مجھے یقین ہے کہ جلد یہ بحران ختم ہوگا اور حالات معمول پر آ جائیں گے۔