متحدہ عرب امارات نے افغان طالبان کے سفیر کو تسلیم کر لیا
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) افغانستان پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان حکومت نے پہلی بار متحدہ عرب امارات میں اپنا پہلا تسلیم شدہ سفیر مقرر کیا ہے، جو چین کے بعد افغان سفیر کے اسناد کو قبول کرنے والا دوسرا ملک ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق 2021 میں دوبارہ افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے والی طالبان حکومت کو کسی بھی غیر ملکی دارالحکومت نے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا، صرف بیجنگ نے رسمی طور پر ایک سفیر کی اسناد کو قبول کیا ہے۔
طالبان نے پڑوسی ملک پاکستان سمیت کئی ممالک میں اپنے سفیروں کو ’چارج ڈی افیئرز‘ کے طور پر مشن کے لیے بھیجا ہے۔
طالبان کے زیر انتظام وزارت خارجہ نے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ مولوی بدرالدین حقانی کو یو اے ای کے لیے سفیر نامزد کیا گیا ہے اور انہوں نے اپنی سفارتی اسناد متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کے معاون انڈر سیکریٹری برائے پروٹوکول امور کو پیش کی ہیں۔
واضح رہے کہ بدرالدین حقانی نام کے ایک سفیر اس سے قبل بھی متحدہ عرب امارات میں طالبان کے ایک ایلچی کے طور پر کام کر چکے ہیں، تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ وہی ہیں یا کوئی دوسری شخصیت۔ تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا گیا۔
افغان وزارت خارجہ نے کہا ’افغانستان کے نئے تسلیم شدہ سفیر جلد ہی ایک سرکاری تقریب کے دوران متحدہ عرب امارات کے امیر کو باضابطہ طور پر اپنی اسناد پیش کریں گے‘۔
بدرالدین حقانی کا تعلق قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سے نہیں ہے، جنہوں نے گزشتہ جون میں متحدہ عرب امارات کے رہنما شیخ محمد بن زید آل نہیان سے ملاقات کی تھی۔ تاہم اطلاعات ہیں کہ ان کا تعلق انہیں کی ٹیم سے ہے۔
واضح رہے کہ سراج الدین حقانی طاقتور حقانی نیٹ ورک کے موجودہ لیڈر ہیں، جنہیں مغربی ممالک نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ ہلاکت خیز حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں وہ امریکہ کو مطلوب ہیں اور کئی پابندیوں کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔یاد رہے کہ طالبان کے متحدہ عرب امارات کے ساتھ اقتصادی تعلقات قائم ہیں اور انہوں نے 2022 میں کابل ہوائی اڈے پر آپریشنز چلانے کا معاہدہ کیا تھا۔
طالبان حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کو امریکا نے ’عالمی دہشت گرد‘ کے طور پر نامزد کیا تھا اور ان پر سفری پابندیاں بھی عائد کی گئی تھیں تاہم رواں سال جون میں اقوام متحدہ کی جانب سے ان پر سفری پابندیوں کے خاتمے کے بعد سراج الدین حقانی نے جون میں متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید آل نہیان سے ملاقات کی تھی۔
مغربی ممالک سے پوری طرح الگ تھلگ رہنے کے باوجود، افغانستان کی طالبان قیادت نے بڑی علاقائی طاقتوں کے ساتھ دوطرفہ تعلقات استوار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
گذشتہ ہفتے ہی ازبک وزیر اعظم عبداللہ اریپوف نے کابل کا دورہ کیا تھا، جو کابل پر تین سال قبل طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کسی بھی غیر ملکی اہلکار کا اعلیٰ ترین سطح کا دورہ تھا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ طالبان کے زیر انتظام افغانستان کو سرکاری طور پر تسلیم کرنا اس وقت “تقریباً ناممکن” ہے جب تک ملک کی خواتین اور لڑکیوں پر پابندیاں عائد ہیں۔
اس دوران ایک الگ پیش رفت میں بدھ کے روز اقوام متحدہ کے مقرر کردہ حقوق کے ماہر نے طالبان کے اس فیصلے کی مذمت کی، جس میں انہوں نے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ بینیٹ کو ملک میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔
واضح رہے کہ خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کے حوالے سے خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ طالبان کے سلوک پر اکثر تنقید کرتے رہے ہیں۔
کابل میں وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بینیٹ کی سرگرمیاں افغانستان اور افغان عوام کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہیں۔