ٹرمپ کا افغانستان میں بگرام ایئربیس دوبارہ حاصل کرنے کا اعلان: چین کو پیغام؟
Posted on 56 years ago 1 min read
لندن- سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ ان کی انتظامیہ افغانستان میں واقع بگرام ایئربیس کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ انہوں نے اس اقدام کی وجہ اس سابق امریکی اڈے کا چین کے جوہری تنصیبات کے قریب ہونا بتائی ہے۔
لندن میں برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا،
“ہم اس اڈے کو واپس حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ اس جگہ سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے جہاں چین اپنے جوہری ہتھیار بناتا ہے۔”
ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑی حد تک فلسطینی ریاست کے حوالے سے کیئر اسٹارمر پر تنقید کرنے یا آزادی اظہار رائے پر برطانیہ پر حملہ کرنے سے گریز کیا۔
بگرام ایئر بیس، جو کابل سے 44 کلومیٹر شمال میں واقع ہے، 20 سالہ امریکی قیادت میں ہونے والی أفغانستان کی جنگ اور اس سے جڑے آپریشنز کا مرکزی مرکز تھا۔ طالبان جنگجوؤں کے ساتھ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات اور اس کے نتیجے میں فروری ۲۰۱۹ میں ہونے والے معا ہدے کے تحت اگست 2021 میں صدر جو بائیڈن کے دور میں امریکی اور نیٹو افواج نے أفغانستان سے کوچ کیا، جس کے نتیجے میں أفغان صدر اشرف غنی کی حکومت ختم ہوئ اور طالبان جنگجو برسر اقتدار آگئے۔ اس وقت یہ اڈہ افغان طالبان کی وزارت دفاع کے زیر کنٹرول ہے۔
تاہم، کابل حکومت نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ افغان وزارت خارجہ کے ایک نمائندے زکر جلال نے کہا ہے کہ افغانستان اور امریکہ کو ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی بنیادوں پر تعلقات مضبوط کرنے چاہئیں، مگر امریکی فوجی موجودگی کی بحالی قابل قبول نہیں۔
ٹرمپ اس سے قبل بھی متعدد بار اس اڈے کی اسٹریٹجک اہمیت پر زور دیتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ اس پر چین کا کنٹرول ہے، تاہم افغان حکام اور چین دونوں ہی اس دعوے کی تردید کر چکے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد اکتوبر 2021 سے افغانستان کی طالبان حکومت کے چیف ترجمان ہیں۔
افغان حکومت اور چین دونوں ہی ٹرمپ کے ان دعوؤں کو رد کر چکے ہیں کہ چین نے اس اڈے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مارچ 2025 میں ٹرمپ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے امریکہ کو خبردار کیا تھا کہ وہ “غیر مصدقہ معلومات پر مبنی جذباتی بیانات” سے گریز کرے۔
دوسری جانب واشنگٹن میں چینی سفارت خانے کے ترجمان لیو پینگیو نے بھی ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیجنگ کی وسطی ایشیا میں کوئی فوجی موجودگی نہیں ہے اور وہ اپنی قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والی کسی بھی کارروائی کی سختی سے مخالفت کرے گا۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ بگرام ایئربیس پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے ایک بڑی فوجی کارروائی کی ضرورت ہوگی، جس میں 10 ہزار سے زائد فوجی اور جدید فضائی دفاعی نظام کی تعیناتی شامل ہوسکتی ہے، جو ملک پر دوبارہ حملے کے مترادف ہوگا۔ حکام نے واضح کیا کہ فی الحال بگرام پر فوجی قبضے کی کوئی فعال منصوبہ بندی نہیں ہو رہی ہے۔
یاد رہے کہ 2021 میں بگرام سے امریکی افواج کا انخلا افراتفری کے عالم میں ہوا تھا، جس کے بعد افغان حکومت اور سیکیورٹی فورسز تیزی سے تحلیل ہو گئی تھیں اور طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے فروری 2020 میں طالبان کے ساتھ فوجیوں کے انخلا کے معاہدے پر بات چیت کی تھی، تاہم اس پر عمل درآمد جو بائیڈن کی صدارت میں ہوا۔
افغانستان سے نکلنے والے آخری امریکی فوجی میجر جنرل کرس ڈوناہو کو کم از کم 17 بار تعینات کیا گیا ہے جن میں چار بار افغانستان بھی شامل ہے۔
پاکستان کے سیکیورٹی خدشات
پاکستانی سیکیورٹی ادارے بارہا اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں چھوڑے گئے جدید ہتھیار، گاڑیاں، اور نائٹ وژن آلات اب شدت پسند گروہوں — خاص طور پر ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں — کے ہاتھ آ چکے ہیں۔
پاکستانی کسٹم حکام نے طورخم کراسنگ پر افغانستان میں امریکی افواج کی طرف سے چھوڑے گئے ہتھیاروں کی ایک کھیپ دریافت اور ضبط کرنے کا اعلان کیا۔ اکتوبر 2024
پاکستانی فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان ہتھیاروں کے ذریعے ہونے والے درجنوں حملوں کا سامنا کر چکے ہیں:
دسمبر 2022 میں وانا، جنوبی وزیرستان میں پاک فوج کے 6 جوان شہید ہوئے — حملے میں امریکی ساختہ ایم-4 رائفلز استعمال ہوئیں۔
جنوری 2023 میں خضدار، بلوچستان میں فوجی قافلے پر حملے میں RPG-7 اور نائٹ وژن ڈرون استعمال ہوا — جو ممکنہ طور پر چھوڑے گئے امریکی ساز و سامان کا حصہ تھا۔
اگست 2025 میں لکی مروت میں پولیس چوکی پر حملے میں 9 اہلکار ہلاک ہوئے، حملہ آوروں کے قبضے سے امریکی ساختہ اسلحہ برآمد ہوا۔
یہ واقعات پاکستان کے لیے نہ صرف اندرونی سلامتی کا بحران بن چکے ہیں بلکہ افغانستان کی سرزمین سے کام کرنے والے گروہوں کے ساتھ امریکا اور طالبان کے معاہدوں پر بھی سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں۔
اسلام آباد میں سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ،
ہمیں بگرام کے کنٹرول سے زیادہ، اس بات کی فکر ہے کہ امریکہ کی واپسی کے بعد جو جدید ہتھیار افغانستان میں رہ گئے، وہ اب ہمارے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔
بگرام ایئربیس کی حیثیت اب ایک جیو پولیٹیکل پاور پلی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ایک طرف امریکہ اسے چین کے خلاف اسٹریٹجک ہتھیار کے طور پر واپس چاہتا ہے، دوسری طرف پاکستان اور دیگر علاقائی ممالک اس کی سیکیورٹی قیمت چکا رہے ہیں۔