اردو انٹرنیشنل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج (منگل) کو اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ سے ملاقات کریں گے، جس میں غزہ کی تعمیر نو اور فلسطینی پناہ گزینوں کے مستقبل پر گفتگو متوقع ہے۔
ٹرمپ نے ایک ہفتہ قبل یہ تجویز دی تھی کہ امریکہ غزہ کو خرید کر اس کا کنٹرول سنبھال لے گا اور فلسطینیوں کو پڑوسی عرب ریاستوں میں منتقل کردیا جائے گا، کیونکہ جنگ کے بعد غزہ رہائش کے قابل نہیں رہا اور اس علاقے کی تعمیر نو کی ضرورت ہے۔ تاہم، اس تجویز کی عرب ممالک نے شدید مخالفتکی، خصوصاً اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ نے، انہوں نے فلسطینیوں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کر دیا ہے۔
شاہ عبداللہ نے خبردار کیا ہے کہ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی سے خطے میں کشیدگی بڑھے گی اور اسرائیل کے ساتھ امن خطرے میں پڑ جائے گا۔ دوسری جانب، ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر اردن اور دیگر عرب ممالک فلسطینی پناہ گزینوں کو جگہ دینے پر راضی نہ ہوئے تو وہ ان ممالک کی امریکی امداد روک سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا،”مجھے لگتا ہے کہ اردن پناہ گزینوں کو قبول کر لے گا”، جبکہ اردن پہلے ہی 2 ملین سے زائد فلسطینی پناہ گزینوں کا میزبان ہے۔
حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیلی یرغمالیوں کی مزید رہائی کو روک دے گا کیونکہ اسرائیل نے مبینہ طور پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ جواب میں، ٹرمپ نے دھمکی دی کہ اگر ہفتے تک تمام یرغمالیوں کو جلد رہا نہ کیا گیا تو جنگ بندی کو منسوخ کر دیا جائے گا۔
اردن کو امریکہ سے سالانہ ایک ارب ڈالر سے زائد کی امداد ملتی ہے اور وہ اقتصادی و فوجی مدد کے لیے واشنگٹن پر انحصار کرتا ہے۔ تاہم، اگر ٹرمپ فلسطینیوں کے حوالے سے اپنے مطالبات پر سخت موقف اپناتے ہیں، تو اردن کے لیے یہ تعلقات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ٹرمپ کی تجویز کو “قابل غور” قرار دیا ہے، لیکن عرب ممالک کی سخت مخالفت کے باعث یہ منصوبہ عملی شکل اختیار کر سکے گا یا نہیں، یہ ابھی واضح نہیں۔