
Trump fires top US general in unprecedented Pentagon shakeup Photo-Reuters
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز امریکی فوج کی اعلیٰ قیادت میں غیر معمولی تبدیلیاں کرتے ہوئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، جنرل سی کیو براؤن سمیت پانچ دیگر اعلیٰ فوجی افسران کو برطرف کر دیا۔
صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر اعلان کیا کہ وہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ڈین “رازن” کین کو جنرل براؤن کی جگہ نامزد کریں گے۔ یہ ایک غیر معمولی فیصلہ ہے کیونکہ عموماً اس عہدے کے لیے حاضر سروس افسران کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
پینٹاگون کے مطابق، ٹرمپ نے امریکی بحریہ کی سربراہ ایڈمرل لیزا فرنچیٹی کو بھی برطرف کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو اس عہدے پر پہنچنے والی پہلی خاتون تھیں۔ اس کے علاوہ، فضائیہ کے نائب سربراہ کے ساتھ ساتھ فوج، بحریہ اور فضائیہ کے جج ایڈووکیٹ جنرلز جو فوجی انصاف کے نظام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کو بھی ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔
یہ اقدامات ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب پینٹاگون پہلے ہی بڑے پیمانے پر سویلین عملے میں تبدیلی، بجٹ میں ردوبدل، اور ٹرمپ کی “امریکہ فرسٹ” پالیسی کے تحت فوجی تعیناتیوں میں ممکنہ تبدیلیوں کی تیاری کر رہا تھا۔
صدر ٹرمپ کے اس فیصلے پر ڈیموکریٹک قانون سازوں نے شدید تنقید کی ہے۔
سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سینیئر ڈیموکریٹ، سینیٹر جیک ریڈ نے کہا
“کسی افسر کو سیاسی وفاداری یا رنگ و نسل کی بنیاد پر برطرف کرنا فوجی قیادت کے اعتماد اور پیشہ ورانہ مہارت کو نقصان پہنچاتا ہے۔”
ڈیموکریٹک کانگریس کے رکن سیٹھ مولٹن نے اس فیصلے کو “امریکی اقدار کے خلاف، حب الوطنی سے عاری اور ملکی سلامتی کے لیے نقصان دہ” قرار دیا۔
جنرل براؤن امریکی فوج میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے عہدے پر پہنچنے والے دوسرے سیاہ فام افسر تھے اور ان کی مدت ملازمت 2027 تک تھی۔ ایک امریکی اہلکار کے مطابق، سینیٹ سے ان کے متبادل کی منظوری سے قبل ہی انہیں برطرف کر دیا گیا۔
گزشتہ سال صدارتی مہم کے دوران، ٹرمپ نے “ترجیحی نظریات رکھنے والے” جرنیلوں کو ہٹانے اور افغانستان سے 2021 میں ہونے والے متنازع انخلاء کے ذمہ داروں کو برطرف کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ تاہم، جمعہ کے روز انہوں نے جنرل براؤن کو ہٹانے کی کوئی خاص وجہ نہیں بتائی۔