اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) اسرائیلی حکومت کی عدالتی مشیر (پراسیکیوٹر جنرل) غالی بہاراف میارا نے جمعرات کے روز فیصلہ جاری کیا کہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی اہلیہ سارہ کے ساتھ تحقیقات کی جائیں۔ اس فیصلے کے حوالے سے اسرائیلی سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں وسیع پیمانے پر رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ سارہ پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے شوہر کے خلاف مقدمے میں گواہان کو پریشان کیا اور انصاف کے عمل میں رکاوٹ ڈالی۔
اس فیصلے کے حوالے سے نیتن یاہو کے بیان پر ان کی جماعت “لیکوڈ پارٹی” کے حامیوں نے بیان کا دفاع کیا ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن کی نکتہ چینی میں اضافہ ہوا ہے جس کے نزدیک نیتن یاہو کا بیان میڈیا کی آزادی کے خلاف اور حقائق چھپانے کی کوشش ہے۔
اسرائیلی حکومت کی عدالتی مشیر میارا نے اپنے بیان میں کہا کہ “ان دعوؤں کے حوالے سے تحقیقات شروع کی جانی چاہیے کہ سارہ نیتن یاہو نے عوفدا ٹی وی پروگرام میں نشر مواد کے حوالے سے گواہان کو تنگ کیا اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالی”۔
یہ پروگرام گذشتہ ہفتے اسرائیلی ٹی وی چینل 12 پر نشر ہوا تھا۔ مذکورہ پروگرام میں دعویٰ کیا گیا کہ سارہ نیتن یاہو نے اپنے شوہر کے خلاف بد عنوانی کے مقدمے میں ایک گواہ کو دھمکایا۔ مزید یہ کہ انھوں نے بالواسطہ طور پر عدالتی مشیر اور ان کے نائب کو بھی پریشان کیا۔
نیتن یاہو نے یہ بھی کہا کہ “سارہ میری اہلیہ، میرے بچوں کی ماں، وہ ایسی عورت ہے جو اسرائیل کے عوام کے لیے بہت کچھ کر رہی ہے … سارہ خدمت عامہ میں بچوں کے لیے نفسیاتی معالج کے طور پر کام کرتی ہے، وہ سرطان میں مبتلا مریضوں اور بچوں کے علاوہ زخمی اسرائیلی فوجیوں اور اغوا اور قتل ہونے والے افراد کے اہل خانہ کے ساتھ میل جول رکھتی ہے خواہ وہ یہودی ہوں یا غیر یہودی”۔
نیتن یاہو نے ذرائع ابلاغ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “تمام فلاحی اور انسانی کاموں کے باوجود آپ میڈیا میں سارہ کے بارے میں کوئی ایک حقیقی لفظ نہیں سنیں گے”۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے مطابق میڈیا جھوٹ کے ذریعے سارہ کو بد نام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ “وہ اسے حقیقت کا نام دے رہے ہیں مگر دراصل یہ ایک جھوٹا اور گھٹیا پروپیگنڈا ہے”۔
نیتن یاہو نے ٹی وی رپورٹ کے محققین پر سارہ کے بارے میں جھوٹ پھیلانے کا الزام عائد کیا مثلا یہ الزام کہ سارہ نے اسرائیلی ریاست کے راز حزب اللہ کے سابق سربراہ حسن نصر اللہ تک پہنچائے۔