“لاشیں آتی ہی گئیں” ریو ڈی جنیرو میں مہلک پولیس آپریشن کے بعد فوٹوگرافر کی روداد

“لاشیں آتی ہی گئیں” ریو ڈی جنیرو میں مہلک پولیس آپریشن کے بعد فوٹوگرافر کی روداد
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) بی بی سی نیوز کے مطابق ریو ڈی جنیرو میں برازیلی پولیس کے ایک بڑے آپریشن کے بعد ایک فوٹوگرافر نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے کس طرح مقامی لوگ ہلاک شدگان کی مسخ شدہ لاشیں واپس لاتے دیکھیں۔
فوٹوگرافر برونو ایتان (Bruno Itan) نے بی بی سی برازیل کو بتایا “لاشیں آتی ہی گئیں: 25، 30، 35، 40، 45…” ان میں پولیس اہلکاروں کی لاشیں بھی شامل تھیں۔انہوں نے بتایا کہ ایک لاش کا سر قلم کیا گیا تھا جبکہ دیگر لاشیں “مکمل طور پر مسخ” تھیں۔ ان میں سے کئی پر چاقو کے زخم بھی تھے۔
منگل کے روز ایک جرائم پیشہ گروہ کے خلاف کی گئی کارروائی میں 120 سے زائد افراد ہلاک ہوئے — جو شہر کی تاریخ کا سب سے خونریز پولیس آپریشن بن گیا۔
ایتان کے مطابق انہیں منگل کی صبح ریو کے الیماؤ (Alemão) محلے کے رہائشیوں نے پیغامات بھیج کر بتایا کہ وہاں فائرنگ ہو رہی ہے۔
وہ گیٹولیو ورگاس اسپتال پہنچے، جہاں زخمیوں اور لاشوں کو لایا جا رہا تھا۔
ایتان نے بتایا کہ پولیس نے پینیا (Penha) محلے میں صحافیوں کے داخلے پر پابندی لگا دی۔پولیس اہلکاروں نے ایک لائن بنائی اور کہا: ’پریس یہاں سے آگے نہیں جا سکتی۔لیکن چونکہ ایتان خود اسی علاقے کے رہائشی تھے، وہ کسی طرح سیل شدہ علاقے میں داخل ہو گئے اور اگلی صبح تک وہیں رہے۔
منگل کی رات، مقامی باشندوں نے پینیا اور الیماؤ کے درمیان پہاڑی علاقے میں اپنے لاپتہ رشتہ داروں کو تلاش کرنا شروع کیا۔بعد میں انہوں نے ملنے والی لاشوں کو محلے کے ایک چوک میں جمع کیا — اور ایتان کی تصاویر میں ان لمحات کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
ایتان نے بتایا یہ بربریت میرے لیے انتہائی صدمے کا باعث تھی — خاندانوں کا غم، مائیں بے ہوش ہو رہی تھیں، حاملہ بیویاں رو رہی تھیں، والدین غصے اور دکھ میں تھے۔
ریو ریاست کے گورنر نے کہا کہ یہ 2,500 سیکیورٹی اہلکاروں پر مشتمل آپریشن ایک جرائم پیشہ گروہ کوماندو ورمیلیو (Comando Vermelho) یا ریڈ کمانڈ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کیا گیا۔
ابتدائی طور پر حکومت نے بتایا کہ 60 مشتبہ افراد اور چار پولیس اہلکار مارے گئے۔بعد میں یہ تعداد بڑھ کر 117 مشتبہ افراد بتائی گئی۔
ریو کے پبلک ڈیفنڈر آفس نے ہلاکتوں کی کل تعداد 132 بتائی ہے۔
تحقیقات کے مطابق ریڈ کمانڈ واحد گروہ ہے جس نے گزشتہ برسوں میں ریو ڈی جنیرو میں اپنی عمل داری میں توسیع کی ہے۔یہ ملک کے دو بڑے جرائم پیشہ نیٹ ورکس میں سے ایک ہے، دوسرا گروہ فرسٹ کیپیٹل کمانڈ (PCC) ہے۔
برازیلی صحافی رافیل سوارس (Rafael Soares) کے مطابق ریڈ کمانڈ “فرنچائز” کی طرز پر کام کرتا ہے یعنی مختلف مقامی مجرم گروہ اس کے ساتھ شراکت داری کر کے حصہ بن جاتے ہیں۔
یہ گروہ بنیادی طور پر منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلحہ، سونا، ایندھن، شراب اور تمباکو کی غیر قانونی تجارت بھی کرتا ہے۔
حکام کے مطابق گروہ کے ارکان جدید اسلحے سے لیس ہیں، اور پولیس کا کہنا ہے کہ چھاپے کے دوران ان پر بارودی مواد سے لیس ڈرونزسے حملے کیے گئے۔
ریو کے گورنر کلاوڈیو کاسٹرو (Cláudio Castro) نے ریڈ کمانڈ کے ارکان کو “نارکو ٹیرورسٹ” قرار دیا اور چار ہلاک پولیس اہلکاروں کو “ہیرو” کہا۔تاہم، اس آپریشن میں بڑی تعداد میں ہلاکتوں پر شدید تنقید ہوئی ہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (OHCHR) نے کہا کہ وہ “اس واقعے سے خوفزدہ” ہیں۔
بدھ کو پریس کانفرنس میں گورنر کاسٹرو نے پولیس کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہم کسی کو مارنا نہیں چاہتے تھے، ہمارا مقصد سب کو زندہ گرفتار کرنا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ صورتحال اس وقت بگڑ گئی جب “جرائم پیشہ افراد نے جوابی حملہ کیا اور ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کی۔
گورنر نے یہ بھی الزام لگایا کہ پینیا میں شہریوں کی جانب سے پیش کی گئی کچھ لاشوں کو “چھیڑا گیا” تھا۔انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (X) پر دعویٰ کیا کہ کچھ لاشوں سے “کیموفلاج یونیفارم” اتارے گئے تاکہ پولیس پر الزام لگایا جا سکے۔
ریو کی سول پولیس کے اہلکار فیلیپ کُری (Felipe Curi) نے بھی کہا کہ “کیموفلاج یونیفارم، جیکٹس، اور ہتھیار” لاشوں سے ہٹائے گئے، اور انہوں نے ایک ویڈیو بھی دکھائی جس میں ایک شخص کو لاش سے کپڑے کاٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
برازیل کی سپریم کورٹ کے جج الیکزندر دے موریس (Alexandre de Moraes) نے گورنر کاسٹرو کو پیر کے روز عدالت میں طلب کیا ہے تاکہ وہ پولیس کارروائی کی تفصیلات پیش کریں۔
(اضافی رپورٹنگ: بی بی سی برازیل کی کیرول کاسٹرو، ریو ڈی جنیرو سے)





