
سرحدی تجارت کی عارضی معطلی،کیا پاکستان مستقل طور پر افغان منڈی کھو رہا ہے ؟ مضمون
کیا پاکستان مستقل طور پر افغان منڈی کھو رہا ہے، یا یہ حالیہ تعطل دو طرفہ تجارت میں ایک اور عارضی رکاوٹ ہے؟
فی الحال دونوں ممالک کے معاشی تعلقات کا مستقبل واضح نہیں۔ تاہم بڑھتے ہوئے شواہد اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ کابل میں طالبان حکومت بتدریج پاکستان پر اپنا انحصار کم کر رہی ہے اور اپنی برآمدات اور ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے متبادل راستے اور منڈیاں تلاش کرنے میں تیزی دکھا رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے افغانستان کے نائب وزیراعظم برائے اقتصادی امور، ملا عبدالغنی برادر نے افغان تاجروں کو ہدایت دی کہ وہ تین ماہ کے اندر اپنے تجارتی معاہدے نمٹا لیں اور اشیا کی فروخت اور ٹرانزٹ کے لیے نئی منڈیاں اور تجارتی راستے تلاش کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ تجارتی راستے کھلیں تو اسے ایسی قابلِ بھروسہ یقین دہانیاں دینا ہوں گی کہ مستقبل میں کسی بھی صورت میں دوبارہ بندش نہیں ہوگی۔
پیغام واضح ہے کابل اقتصادی تعلقات ختم کرنے کے لیے تیار ہے اگر اسلام آباد نے بلا تعطل تجارت کی ضمانت نہ دی۔
خیبر پختونخواہ کی 90 فیصد صنعت بند ہونے کے خطرے سے دوچار
یہ الٹی میٹم دوحہ اور استنبول میں کئی ناکام مذاکراتی دور کے بعد سامنے آیا ہے۔ طالبان حکومت پاکستان مخالف گروہوں کو لگام ڈالنے یا جنگجوؤں کو سرحد پار حملوں سے روکنے کے مطالبات ماننے سے گریزاں رہی۔ فائر بندی تو ہو چکی ہے، جو برقرار بھی ہے، لیکن 11 اکتوبر سے تجارتی سرحدیں تاحال بند ہیں۔
دو طرفہ اور ٹرانزٹ تجارت رکنے سے ہزاروں کنٹینر پاکستان بھر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس بندش سے عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت محدود ہوئی ہے۔
یہ کشیدگی 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بدترین محاذ آرائی کے بعد سامنے آئی ہے۔
افغانستان تیزی سے ایران کی طرف منتقل ہو رہا ہے: رائٹرز
رائٹرز کے مطابق افغانستان ایران کی رعایتی ڈیوٹیوں اور دیگر مراعات سے فائدہ اٹھا کر اپنی تجارت کو بھارتی حمایت یافتہ چابہار بندرگاہ کی طرف منتقل کر رہا ہے تاکہ پاکستان کی بار بار بند ہونے والی سرحدوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔
افغان حکام کے مطابق ڈیوٹی میں کمی، سستی اسٹوریج، اور تیز تر کلیئرنس کے باعث چابہار پر کارگو میں اضافہ ہوا ہے۔افغان وزارتِ تجارت کے ترجمان عبدالسلام جواد اخوندزادہ نے بتایاگزشتہ چھ ماہ میں ایران کے ساتھ تجارت 1.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ تجارت 1.1 ارب ڈالر رہی۔
ان کے مطابقچابہار پر افغان کارگو کے لیے بندرگاہی ڈیوٹی میں 30 فیصد کمی،اسٹوریج فیس میں 75 فیصد رعایتاور ڈوکنگ چارجز میں 55 فیصد کمی نے تاجروں کو اعتماد دیا ہے کہ تجارت رکنے کا خطرہ کم ہو گیا ہے۔
پاکستان 65 فیصد افغان مارکیٹ پہلے ہی کھو چکا ہے
پاکستانی حکام اور تاجروں کے مطابق ایران، وسطی ایشیا، ترکی اور حتیٰ کہ بھارت بھی پاکستان سے افغان مارکیٹ کا بڑا حصہ چھین چکے ہیں۔
وجہ: سکیورٹی وجوہات کے تحت پاکستان کی جارحانہ و غیر دوستانہ تجارتی پالیسیاں۔
جے ایس گلوبل کی رپورٹ کہتی ہے کہ افغانستان ابھی بھی پاکستان پر اپنے 41 فیصد برآمدات اور 14 فیصد درآمدات کے لیے انحصار کرتا ہے، اس لیے طویل بندش کا پہلا نقصان افغانستان کو ہوگا — کم از کم قریب المدت میں۔لیکن پاکستان کے لیے بھی اس کے سنگین معاشی اثرات سامنے آئیں گے
ہزاروں کم تنخواہ ملازمین کی نوکریاں خطرے میں ہوں گی
خیبر پختونخوا کی چھوٹی صنعتیں تباہ ہو سکتی ہیں
برآمدی آمدنی میں بڑی کمی ہوگی
وسطی ایشیا تک رسائی محدود ہو جائے گی
صوبے کے کاروباری رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سرحد کھولنے میں تاخیر معیشت کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔
پاکستان کو سالانہ 1.2–1.3 ارب ڈالر کے نقصان کا خطرہ
جے ایس گلوبل کے مطابق اگر 2025 کے باقی سال میں سرحد بند رہے تو پاکستان کی برآمدات کو 150–169 ملین ڈالر کا نقصان ہوگا — جو مجموعی تجارت کا صرف 0.5 فیصد بنتا ہے۔لیکن رپورٹ طویل المدت نقصانات پر خاموش ہے۔
اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ افغان تجارت رکنے سے پاکستان کو خاص فرق نہیں پڑے گا — وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابقتجارت 2014 میں 3 ارب ڈالر سے گر کر 600–700 ملین ڈالر رہ گئی
سابق صدر سرحد چیمبر، زاہد اللہ شنواری کے مطابق:
2014 میں افغانستان پاکستان کی تیسری سب سے بڑی برآمدی منڈی تھی، تجارت 3 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی
نیٹو انخلا کے بعد افغان معیشت کمزور پڑی تو تجارت 600–700 ملین ڈالر تک سکڑ گئی
پاکستان کی افغانستان کو بڑی برآمدات:
سیمنٹ، اسٹیل، ٹیکسٹائل، جوتے، چینی
آٹا، مرغی اور پھل
KP کا ٹرانسپورٹ اور لیبر سیکٹر بھی اسی پر منحصر ہے
پشاور کے ہشتنگری، حیات آباد اور دیگر علاقوں میں اسپتال، ہوٹل، ریسٹورنٹس اور اسکول افغان گاہکوں پر چلتے تھے — پابندیوں نے انہیں شدید نقصان پہنچایا۔
KP کی 90٪ صنعت بند ہونے کے دہانے پر
شنواری کے مطابق:
KP کی زیادہ تر صنعت پنجاب و سندھ سے مقابلہ نہیں کر سکتی
افغان مارکیٹ ان کے لیے واحد قابلِ عمل راستہ ہے
اگر یہ بند ہوئی تو صوبے کی 90 فیصد صنعت ختم ہو سکتی ہے
ضم شدہ اضلاع میں 95 فیصد روزگار اسی تجارت سے جڑا ہے
مزید:
حکومت روزانہ تقریباً 300 ملین روپے ٹیکس لیتی ہے
سالانہ 1.2–1.3 ارب ڈالر کی برآمدات خطرے میں ہیں
ان کے مطابق ایران اور وسطی ایشیا پہلے ہی پاکستان کا بڑا حصہ لے چکے ہیں۔ اگر اب سرحد نہ کھولی گئی تو باقی بچا ہوا افغان بازار بھی ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔



