سری لنکا: بدترین معاشی بحران کے بعد پہلا صدارتی انتخاب ہفتے کو ہوگا
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ہفتہ 21 ستمبر 2024 کو سری لنکا میں صدارتی انتخابات ہوں گے۔ 2024 کے صدارتی انتخابات 2022 میں ملک گیر احتجاجی تحریک (اراگالیا) کے بعد پہلا الیکشن ہو گا جس میں لوگ انتخابات میں حصہ لیں گے۔ اس صدارتی انتخاب میں امیدواروں کی ایک تاریخی تعداد حصہ لے گی۔
مالی مشکلات کا شکار سری لنکا میں اگلے صدر کے انتخاب کے لیے رائے شماری ہفتہ کو ہو گی، جو کہ ملک کے بدترین معاشی بحران کے بعد نافذ کردہ غیر مقبول عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی کفایت شعاری کی پالیسی کے خلاف ایک مؤثر ریفرنڈم ہوگا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق سری لنکن صدر رانیل وکرما سنگھے نے ووٹرز سے کفایت شعاری کے اقدامات کو جاری رکھنے کے لیے نیا مینڈیٹ دینے کی درخواست کی ہے، یہ اقدامات ملکی معیشت میں استحکام لائے، خوراک کی قلت اور ادویات کی قلت کو ختم کیا۔
سری لنکن صدر نے اپنی آخری انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں معاشی بحران کا خاتمہ کرنے کے لیے اصلاحات جاری رکھنی ہوں گی اور ہمیں ایک نئی معیشت قائم کرنی ہوگی۔‘
واضح رہے کہ انہوں نے 2022 میں معاشی بدحالی سے پیدا ہونے والی عوامی بدامنی کے بعد سری لنکا میں امن بحال کیا، جس میں ہزاروں افراد نے ان کے پیش رو کی رہائش گاہ پر دھاوا بولا تھا جو فوری طور پر ملک سے فرار ہوگئے تھے۔
تاہم رانیل وکرما سنگھے کی جانب سے آئی ایم ایف کے 2.9 ارب ڈالر بیل آؤٹ پیکج کی شرائط کی وجہ سے ٹیکسز میں اضافہ اور دیگر سخت اقدامات نے لاکھوں افراد کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ سری لنکا کی معیشت اب بھی غیر مستحکم ہے، کیونکہ 2022 کے حکومتی دیوالیہ پن کے بعد 46 ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی اب تک بحال نہیں ہوئی۔
دوسری طرف بین الاقوامی کرائسز گروپ نے کہا ہے کہ انتخابات بڑی حد تک اس بات پر ریفرنڈم ہوں گے کہ رانیل وکرما سنگھے کی حکومت نے معاشی بحران اور اس کے نتیجے میں ہونے والی معمولی بحالی کو کس طرح سنبھالا ہے۔
سری لنکا میں ایک کروڑ 70 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز ہیں، ملک بھر میں 2 لاکھ سے زائد عہدیداران کو انتخابات کے انعقاد کے لیے تعینات کیا گیا ہے جن کی حفاظت 63 ہزار پولیس اہلکار کریں گے، الیکشن کے نتائج کا اعلان اتوار تک متوقع ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سری لنکا میں 2021 اور 2022 کے درمیان غربت کی شرح دوگنی ہوکر 25 فیصد ہوگئی ہے۔
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ اصلاحات کا نتیجہ نکلنا شروع ہو گیا ہے کیونکہ افراط زر بحران کے عروج کی 70 فیصد کی شرح سے کم ہوکر 5 فیصد سے نیچے آگئی ہے اور ملک میں معاشی ترقی آہستہ آہستہ بحال ہو رہی ہے۔