
لاہور،شیخوپورہ میں ٹی ایل پی کے خلاف درج مقدمات کے لیے خصوصی پراسیکیوٹر مقرر
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز کے مطابق پنجاب حکومت نے لاہور اور شیخوپورہ میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے خلاف درج مقدمات میں ریاست کی نمائندگی کے لیے خصوصی سرکاری وکیل مقرر کر دیے ہیں۔ یہ پیش رفت جمعرات کو سامنے آئی۔
یہ اقدام اس وقت کیا گیا جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پیر کی صبح علی الصبح ایک بڑے آپریشن میں مریدکے میں مذہبی و سیاسی جماعت کے احتجاجی کیمپ کو ختم کرنے کی کارروائی کی جس کے نتیجے میں پرتشدد جھڑپیں،افرا تفری اور متعدد گرفتاریوں کی لہر شروع ہوگئی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مریدکے آپریشن کے بعد اب تک 2,716 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے 251 کو لاہور پولیس اور 178 کو شیخوپورہ پولیس نے حراست میں لیا۔ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کے مطابق حکومت نے تقریباً 2,800 افراد پر بیرونِ ملک سفر کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔
پنجاب حکومت کے محکمہ پراسیکیوشن کی جانب سے جاری کردہ ایک حکم نامے (جو Dawn.com کو موصول ہوا) کے مطابق سپریم کورٹ کے وکیل رانا شکیل احمد خان اور ہائی کورٹ کے وکیل چوہدری خالد رشید کو لاہور اور شیخوپورہ کی حدود میں ٹی ایل پی کے خلاف درج تمام مقدمات کے لیے خصوصی سرکاری وکیل مقرر کیا گیا ہے۔
یہ تقرریاں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) لیگل لاہور کی جانب سے پنجاب پولیس کے سربراہ ڈاکٹر عثمان اعوان کو بھیجے گئے ایک خط کے بعد کی گئیں اور یہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ (ATA) کی دفعہ 18 کے تحت کی گئی ہیں جو حکومت کو انسدادِ دہشت گردی عدالتوں، ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں سرکاری وکلا یا لاء افسران تعینات کرنے کا اختیار دیتی ہے۔
خصوصی سرکاری وکلا تفتیشی افسران اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں (JITs) کے ساتھ رابطہ رکھیں گے تاکہ مؤثر تفتیش،مقدمات کی تیاری اور ریاست کی نمائندگی عدالتوں میں کی جا سکے جس میں ریمانڈ، ضمانت، اور ٹرائل سمیت تمام کارروائیاں شامل ہیں۔ وہ لاہور ہائی کورٹ میں بھی ریاست کی نمائندگی کریں گے،بشمول ضمانت،اپیلیں،نظرثانی درخواستیں، سزا کی معطلی کی درخواستیں،رِٹ پٹیشنز اور دیگر متعلقہ معاملات۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ان کی سروس کی شرائط و ضوابط علیحدہ طور پر جاری کیے جائیں گے۔
دوسری جانب پولیس نے مریدکے کے واقعات کے بعد ٹی ایل پی کے خلاف کریک ڈاؤن مزید سخت کر دیا ہے اور حکام نے اس شدت پسند تنظیم کے خطرے کو “غیر مؤثر” کرنے کے لیے متعدد اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ اس نے ماضی میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور غیر مسلم برادریوں کے لیے سنگین خطرات پیدا کیے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ٹی ایل پی کے خلاف اس کارروائی کا فیصلہ کچھ اہم اجلاسوں کے بعد کیا گیا، جن میں تنظیم کے پرتشدد احتجاجات، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر مہلک حملوں، اور مسیحی و احمدی عبادت گاہوں کی توڑ پھوڑ کے واقعات زیرِ بحث آئے۔
اس وقت تنظیم کے خلاف درج مقدمات کی تعداد 72 تک پہنچ گئی ہے، جن میں سے کم از کم 39 لاہور میں درج ہیں، جبکہ ٹی ایل پی کے دوسرے اور تیسرے درجے کے رہنماؤں کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کی موجودہ جگہ کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع نہیں، تاہم لاہور کے ڈی آئی جی فیصل کامران کے مطابق رضوی پولیس آپریشن کے دوران فرار ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے ان کے ممکنہ ٹھکانے کا سراغ لگا لیا ہے اور انہیں جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رضوی کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہیں، جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپے کے دوران بھاری رقم برآمد کی۔ مجموعی طور پر 11 کروڑ روپے کی کرنسی ملی، جس میں 50,000 بھارتی روپے بھی شامل ہیں۔
وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کے مطابق ٹی ایل پی مظاہرین کے خلاف کارروائی اسی انداز میں کی جائے گی جس طرح 9 مئی 2023 کے فسادات میں ملوث افراد کے خلاف کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر ملک گیر کریک ڈاؤن کیا گیا تھا۔