معصومہ زہرا
اسلام آباد
گزشتہ ہفتے لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں جرمنی کی فیڈرک نومان فاؤنڈیشن کے تحت ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد نوجوان صحافیوں کو جدید اے آئی ٹولز اور ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے جدید تکنیک سے آگا ہ کرنا تھا ، یہ ورکشاپ ان تمام صحافیوں کے لیے ہر لحاظ سے مفید اور کارآمد ثابت ہوئی جو ابھی کیریئر کی ابتدائی اسٹیج پر ہیں ۔
اسی ورکشاپ کے پہلے روز شام کی نشست میں پنجاب کے وزیر برائے اقلیتی امور رمیش سنگھ اروڑا نے بطور خصوصی مہمان شرکت کی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ جیسے اہم اور نازک موضوع پر تفصیلی انداز میں بات کی یہیں سے مجھے اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ ہوا اور میں نے اس پر سنجیدگی سے غور کیا ۔
اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے ۱۱ اگست کا دن ہی کیوں اہمیت کا حامل ہے یا اسی دن ہی کیوں اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کرنے پر زور دیا جاتا ہے تو اس کی وجہ بانی پاکستان کی وہ شہرہ آفاق تقریر ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ :
“آپ آزاد ہیں ،آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے ،آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے آپ کا تعلق خواہ کسی بھی ذات ،مذہب یا نسل سے ہو ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ۔
آپ دیکھیں گے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہیں رہیں گے ،اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے ،مذہبی معنوں میں نہیں ، کیونکہ یہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی معنوں میں ، کیونکہ وہ ایک ہی ریاست کے برابر کے شہری ہوں گے ۔”
لیکن اگر تاریخ کا احاطہ کیا جائے تو آج حقیقت بانی پاکستان کی اس تقریر کے بالکل برعکس ہے ،آج ۷۷ برس بعد بانی پاکستان کی اس شہرہ آفاق تقریر کی بازگشت نصابی کتب میں بھی اس طرح سنائی نہیں دیتی جس طرح سنائی دی جانی چاہیے ۔ اگر صرف یہی تاریخی الفاظ ہماری نصابی کتب کا حصہ بن جاتے توشاید ہمیں ۲۰۰۹ میں صوبہ پنجاب کے شہر گوجرہ میں پیش آنے والے واقعے کا سامنا نہ کرنا پڑتا جہاں مسیح برادری پر اس الزام کی وجہ سے زندگی تنگ کردی گئی کہ انہوں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے اور اس غلط فہمی میں ۴۰ سے زائد گھروں کو نذر آتش کیا گیا اور آٹھ افراد کی جانیں لی گئیں ۔
اس کے علاوہ مارچ ۲۰۱۳ میں لاہور کی جوزف کالو نی میں ساون مسیح پر ایک مسلمان دوست کے ساتھ بحث میں توہین رسالت (ص) کا الزام عائد کیا گیا جس کے نتیجے میں ۳ہزار پر مشتمل مشتعل ہجوم نے جوزف کالونی میں ۱۰۰ گھروں کو آگ لگادی ۔
اسی طرح ۲۰۱۹ میں سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ایک ہندو استاد نوتن مل پر اسی کے سکول کے نویں جماعت کے ایک طالب علم نے توہین رسالت کا الزام عائد کیا جس کے نتیجے میں پروفیسر نوتن مل کو گرفتار کیا گیا اور مذہبی جماعتوں نے ضلع بھر میں ہڑتال کی یہاں تک کہ ایک گروہ نے نوتن مل کے سکول اور رہائش گاہ پر حملہ کردیا ۔
حال ہی میں سرگودھاکے علاقے مجاہد کالونی میں بھی ایسی ہی صورت حال سامنے آئی جہاں ۷۳ سالہ بوڑھے شہری نذیر مسیح اور اس کے خاندان پر قرآن مجید جلانے کے الزام میں بہیمانہ تشدد کیا گیا۔
اسی طرح جڑانوالہ اور اس جیسے کئی واقعات ہیں جن کا سامنا ہم ہر سال دو سال بعد کرتے ہیں ۔ وطن ِ عزیز جس کے حصول کے پیچھے یہی نظریہ کارفرما تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت تشکیل دیں گے جہاں تمام اقلیتوں کو برابری کے حقوق دیے جائیں گے ان کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب یا ذات سے ہو وہ ریاست پاکستان کے برابر کے شہری ہوں گے اور ملک و قوم کی ترقی میں شانہ بشانہ اپنا کردار نبھائیں گے تاکہ ہم ہندوستان سے آگے نکل سکیں ۔
لیکن کیا ہم ان ۷۷ برس میں کی گئی ان تمام غلطیوں کا ازالہ کر سکتے ہیں ، مجھے آج بھی یاد ہے جب پانچویں جماعت کے بورڈ کے پرچوں میں اسلامیات کے پرچے والے دن یہ پوچھا گیا کہ یہاں کوئی غیر مسلم بچہ تو نہیں ہے تاکہ اسے اخلاقیات کا پرچہ دیا جائے تو ایک انویجیلیٹر نے انتہائی کرخت آواز میں کہا تھا کہ “نہیں، الحمداللہ یہاں سب مسلمان ہیں” جب معصوم ذہنوں کی اس سطح پر اس طرح کی ذہن سازی ہوگی اور سکولز کی لائبریریوں پر قفل ہوں گے تو یقینا وہ بڑے ہوکر مشتعل جتھوں کا حصہ بنیں گے اور جانے کتنی جوزف کالونیوں کو نذر آتش کریں گے کیونکہ جہالت قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی عادت کو جنم دینے کی ایک بنیادی وجہ ہے۔
قائداعظم نے ۱۰ اگست ۱۹۴۷ کو پہلی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں لیاقت علی خان کی تجویز اور خواجہ ناظم الدین کی تائید پر اسمبلی کے غیر مسلم رکن جوگندر ناتھ منڈل کو اسمبلی کا عارضی صدر منتخب کیا تھا ، اور اس سے اگلے روز یعنی ۱۱ اگست کو ایک تقریر میں اقلیتوں کے حوالے سے تاریخی الفاظ کہے تھے ۔
بانی پاکستان کے اس اقدام اور اس تقریر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی مملکت تشکیل دینا چاہتے تھے جہاں ہر شہری کو برابری کے حقوق حاصل ہو ں اور ہر شہری آزاد ہو، مگر ہم آزاد نہیں ہیں ۔