
سیاسی و عسکری قیادت، نیشنل ایکشن پلان اور افغان پالیسی
ڈان نیوز نے اپنے آج کے ایڈیٹوریل میں افغان پالیسی کے بارے میں منظر کشی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب سے کابل میں کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کی ہلاکت سے متعلق غیر مصدقہ اطلاعات گردش کر رہی ہیں۔پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی پالیسی تشکیل دے جو ملک کی سرحدوں کا تحفظ کرے،داخلی سلامتی کو مستحکم بنائے اور افغانستان کے ساتھ کسی بڑے تصادم کو روکے۔
ڈان نیوز مذید لکھتا ہے کہ اطلاعات کے مطابق جمعرات کے روز افغان دارالحکومت میں دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں،تاہم طالبان حکومت کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ کوئی نقصان نہیں ہوا۔ جمعہ کو جب آئی ایس پی آر کے سربراہ سے ایک پریس کانفرنس میں محسود کی مبینہ ہلاکت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اس کی نہ تصدیق کی اور نہ تردید،البتہ انہوں نے ایک بار پھر یہ سرکاری مؤقف دہرایا کہ افغانستان اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اپنے شہریوں اور سرزمین کے تحفظ کے لیے “جو بھی ضروری ہوا، کرے گا”۔ جمعرات کو وزیر دفاع نے بھی قومی اسمبلی میں یہ معاملہ اٹھایا اور کہا کہ ریاست اس بات پر غور کر رہی ہے کہ کابل ایک اور وفد بھیجا جائے تاکہ طالبان کو اس بات پر قائل کیا جا سکے کہ وہ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کریں۔
ڈان نیوز کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ افغان طالبان اپنی تردیدوں کے باوجود مختلف نظریات کے حامل دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دیتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر 2022 میں امریکی حملے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی کابل میں ہلاکت نے طالبان کو شرمندہ کر دیا تھا کیونکہ یہ امریکہ اور طالبان کے درمیان طے شدہ دوحہ معاہدے کی واضح خلاف ورزی تھی۔ لہٰذا یہ بعید از قیاس نہیں کہ نور ولی محسود بھی کابل ہی میں ہلاک کیا گیا ہو۔
پاکستان ماضی میں بھی سرحد پار کارروائیاں کر چکا ہے تاکہ ان دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جا سکے جو یہاں دہشت گردی کے واقعات کے ذمہ دار تھے یہ ایک نہایت پیچیدہ صورتحال ہے ۔ ریاست کو کارروائی کرنی چاہیے کیونکہ بہت سے دہشت گرد افغان سرزمین پر پناہ لے کر یہاں عام شہریوں اور فوجیوں کو شہید کر رہے ہیں۔ تاہم سرحد پار کارروائیاں خطرات سے خالی نہیں کیونکہ اس سے طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
اس حوالے سے پاکستان کے پاس زیادہ بہتر آپشنز موجود نہیں۔ بیرونی محاذ پر بہترین راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان، چین، روس اور ایران جیسے علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر طالبان حکومت کو یہ پیغام دیتا رہے کہ دہشت گردوں کو پناہ دینے کے نتائج ہوں گے مثلاً تجارت میں کمی، یا سفارتی تعلقات میں تنزلی۔
کابل کو یہ واضح طور پر بتانا ضروری ہے کہ موجودہ صورتحال جس میں دہشت گرد افغان سرزمین پر پناہ لیتے ہیں اور طالبان حکومت انکار کرتی ہے مزید جاری نہیں رہ سکتی۔ افغان طالبان اپنے “مہمان” جنگجوؤں کے ساتھ جو چاہیں کریں، مگر پاکستان اور افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک کو اس بات کی یقین دہانی چاہیے کہ ان کی سلامتی ان دہشت گرد عناصر سے متاثر نہیں ہوگی۔
اندرونی طور پر، جہاں دہشت گردوں سے علاقے واپس لینے کے لیے عسکری کارروائیاں ضروری ہیں، وہیں نیشنل ایکشن پلان کے غیر عسکری پہلوؤں پر بھی عمل درآمد کی ضرورت ہے جیسا کہ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے اشارہ کیا۔ یہ وہ عمل تھا جس پر ریاست کے تمام ادارے متفق تھے۔