
پاکستان کی امریکہ کو پسنی میں نئی بندرگاہ بنانے کی پیشکش،فنانشل ٹائمز
مالیاتی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر کے قریبی مشیروں نے امریکی حکام سے رابطہ کر کے بحیرۂ عرب کے ساحل پر ایک نئی بندرگاہ کی تعمیر اور انتظام کی پیشکش کی ہے، جو واشنگٹن کو دنیا کے حساس ترین خطوں میں سے ایک میں قدم جمانے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔
مالیاتی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق یہ جری منصوبہ پاکستانی ساحلی قصبے پسنی کو امریکی سرمایہ کاروں کی مدد سے ایک ایسے ٹرمینل کے طور پر ترقی دینے کا تصور پیش کرتا ہے جو پاکستان کے قیمتی معدنی وسائل تک رسائی فراہم کرے۔
پسنی ایرانی سرحد سے صرف 100 میل اور چین کے تعاون سے بننے والے گوادر بندرگاہ سے تقریباً 70 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
یہ تجویز، جو فی الحال سرکاری پالیسی کا حصہ نہیں، اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستانی حکام خطے میں حالیہ جیو پولیٹیکل تبدیلیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے مختلف راستوں پر غور کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق یہ منصوبہ بعض امریکی حکام کے ساتھ شیئر کیا گیا اور پچھلے ماہ جنرل منیر کی وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے قبل ان کے ساتھ بھی زیرِ بحث آیا۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے کہا کہ صدر یا ان کے مشیروں کے درمیان اس بارے میں کوئی باضابطہ بات چیت نہیں ہوئی۔
یہ اسکیم ان کئی تجاویز میں شامل ہے جو پاکستانی حکام نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے پیش کی ہیں۔ ان میں ٹرمپ کی حمایت یافتہ کرپٹو منصوبے میں شمولیت، افغانستان میں سرگرم شدت پسند گروپ داعش-خراسان کے خلاف تعاون بڑھانا، ان کے غزہ امن منصوبے کی تائید اور قیمتی معدنیات تک رسائی کی پیشکش شامل ہیں۔
منیر اور ٹرمپ نے حالیہ مہینوں میں ایسے تعلقات قائم کیے ہیں جنہیں امریکی اور پاکستانی سفارتکار ’’برو مینس‘‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب ٹرمپ نے مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دہائیوں کے بدترین تصادم کے بعد ہونے والی جنگ بندی کا سہرا اپنے سر لیا۔
دو دہائیوں تک بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی امریکی قربت کے بعد اس گرمیوں میں واشنگٹن اور نئی دہلی کے تعلقات میں کشیدگی دیکھنے کو ملی۔ بھارت نے ٹرمپ کے جنگ بندی میں کردار کے دعوے کو مسترد کیا جبکہ منیر اور وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس پر کھلے عام ان کا شکریہ ادا کیا اور حتیٰ کہ انہیں نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کیا۔
ٹرمپ نے جواباً پاکستانی فوجی سربراہ کی بھرپور تعریف کی۔ گزشتہ ماہ ہونے والی ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس نے ایسی تصاویر جاری کیں جن میں منیر اور شریف نے امریکی صدر کو معدنی نمونوں کا ایک ڈسپلے کیس پیش کیا۔
ایک مشیر کے مطابق، جو ایک سال سے زائد عرصے سے ٹرمپ ٹیم کے ساتھ پسِ پردہ رابطوں میں شامل رہے
’’جنگ کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا بیانیہ بدل گیا۔ اس سے پہلے حالات بہت خراب تھے۔ ہم نے تعلقات کو اس طرح نہیں سنبھالا جیسا کہ کرنا چاہیے تھا۔ پچھلی دو دہائیوں میں بھارتیوں نے پیدا ہونے والا خلا پُر کر لیا۔‘‘
مشیران نے بتایا کہ پسنی میں مجوزہ بندرگاہ کو ایک نئی ریل پٹڑی کے ذریعے پاکستان کے اندرونی علاقوں سے منسلک کیا جائے گا تاکہ خاص طور پر تانبہ اور اینٹیمونی (جو بیٹریوں، شعلہ روک مواد اور میزائلوں میں استعمال ہوتی ہے) جیسی معدنیات کی ترسیل ہو سکے۔
منصوبے کے خاکے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ بندرگاہ کی تعمیر پر 1.2 ارب ڈالر تک لاگت آئے گی اور اس کے لیے پاکستانی وفاقی فنڈز اور امریکی ترقیاتی مالی امداد کا مشترکہ انتظام تجویز کیا گیا ہے۔
منصوبے کے حامی اسے پاکستان کے لیے عالمی سطح پر توازن قائم رکھنے کی ایک کوشش سمجھتے ہیں، جس میں اسے چین، امریکہ، ایران اور سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرنا ہے۔ اسلام آباد نے گزشتہ ماہ ریاض کے ساتھ ایک سکیورٹی معاہدے پر بھی دستخط کیے۔
خاکے کے مطابق
’’پسنی کی ایران اور وسطی ایشیا کے قریب موجودگی امریکی تجارت اور سکیورٹی کے اختیارات کو بڑھاتی ہے… پسنی میں امریکی شمولیت گوادر کا توازن قائم کرے گی اور بحیرۂ عرب و وسطی ایشیا میں امریکی اثر و رسوخ میں اضافہ کرے گی۔‘‘
دستاویز میں مزید کہا گیا کہ چین کی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت گوادر میں سرمایہ کاری دوہری نوعیت کے خدشات کو جنم دیتی ہے۔ یہ بالواسطہ طور پر امریکی تشویش کا اظہار ہے کہ گوادر کو چین بحری اڈے کے طور پر استعمال کر سکتا ہے، جس کی تردید اسلام آباد اور بیجنگ دونوں کر چکے ہیں۔
چین پاکستان کا روایتی قریبی شراکت دار ہے، جو اس کی فوجی ضروریات اور اربوں ڈالر کے قرض و سرمایہ فراہم کرتا رہا ہے۔ پاکستان نے مئی میں بھارت کے چھ تک طیارے مار گرانے کے لیے چینی ساختہ طیارے اور ہتھیار استعمال کیے۔
خاکے میں واضح کیا گیا کہ پسنی منصوبہ ’’براہِ راست فوجی اڈے‘‘ کو خارج از امکان رکھتا ہے، یعنی یہ امریکی فوجی تنصیب کے طور پر استعمال نہیں ہو گا۔
پاکستان سرد جنگ اور نائن الیون کے بعد امریکی اتحادی رہا لیکن افغانستان میں طالبان کی حمایت کی وجہ سے تعلقات خراب ہوئے۔ اب اسلام آباد سرمایہ کاری اور تجارت پر مبنی تعلقات کو ازسرنو استوار کرنا چاہتا ہے۔
ایک پاکستانی مشیر نے کہا’’میں کافی عرصے سے قیادت سے کہہ رہا ہوں کہ ہمیں چین پر انحصار کم کرتے ہوئے تعلقات متنوع بنانے چاہئیں۔ ہمیں اس منصوبے پر بیجنگ سے مشاورت کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ گوادر کے دائرہ کار سے باہر ہے۔‘‘
امریکہ کی جانب سے پاکستان کے معدنی شعبے میں ابتدائی دلچسپی کے آثار اس وقت نمایاں ہوئے جب امریکی ریاست میسوری کی کمپنی یو ایس اسٹریٹجک میٹلز (USSM) نے ستمبر میں پاکستان کی فوجی انجینئرنگ تنظیم کے ساتھ تعاون بڑھانے کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے۔
یو ایس ایس ایم کے کمرشل ڈائریکٹر مائیک ہولومون نے کہا کہ کمپنی ریفائنری قائم کرنے کی خواہاں ہے اور گزشتہ ماہ کراچی اور گوادر کے قریب بڑے بندرگاہوں کے ڈائریکٹرز اور مقامی نمائندوں سے ملاقات کی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کمپنی نے پسنی کے قریب ممکنہ بندرگاہی منصوبے کے بارے میں باتیں سنی ہیں۔ ’’پسنی قدرتی طور پر گہرے پانی کی بندرگاہ ہے اور اسے ریکوڈک (Reko Diq) کی کان سے ریلوے کے ذریعے منسلک کیا جا سکتا ہے، اس لیے اس علاقے میں سہولت قائم کرنا سمجھ میں آتا ہے۔‘‘
ہولومون کے مطابق
’’ہماری فیلڈ مارشل کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے زور دیا کہ پاکستان طویل عرصے سے امریکہ کا اتحادی رہا ہے اور معدنیات دونوں ممالک کی پرانی دوستی کو ازسرِ نو زندہ کرنے کا راستہ فراہم کر سکتی ہیں۔‘‘
گزشتہ ماہ کے آخر میں پاکستان نے امریکہ کو دو ٹن سے کم اہم اور نایاب معدنیات کا پہلا چھوٹا سا بیچ بھیجا، جن میں تانبہ، اینٹیمونی اور نیوڈیمیم شامل تھے۔ بیجنگ کی جانب سے گزشتہ سال کے آخر میں امریکہ کو اینٹیمونی کی فروخت پر پابندی عائد کرنے کے بعد اس کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کا معدنی شعبہ اس وقت ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں صرف 3 فیصد حصہ ڈال رہا ہے اور زیادہ تر غیر ترقی یافتہ وسائل مغربی صوبوں میں ہیں، جہاں گزشتہ سال ہونے والی شورش کے باعث دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
سرکاری ادارے پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کے سربراہ حسین عابدی نے کہا کہ ملک میں معدنیات کے بے پناہ لیکن غیر دریافت شدہ ذخائر موجود ہیں
’’یہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو سکیورٹی کے بجائے اقتصادی بنیادوں پر ازسرِنو ترتیب دینے کی کوشش ہے۔‘‘



