
جنوبی ایشیا میں کثیرالجہتی نظام زوال کا شکار،اداریہ ڈان نیوز
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ چالیس برس قبل جنوبی ایشیا کے سات ممالک کے رہنماؤں نے ڈھاکہ میں اکٹھے ہو کر جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون تنظیم (سارک) کے چارٹر پر دستخط کیے تھے۔ لیکن چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی سارک ایک ادھورا خواب ہی ثابت ہوئی ہے جس کی پہچان علاقائی انضمام میں کسی بڑی کامیابی کے بجائے ضائع ہونے والی صلاحیتوں سے ہوتی ہے۔ جو تنظیم یورپی یونین یا آسیان جیسی مضبوط علاقائی تنظیم بن سکتی تھی وہ جنوبی ایشیا کے عوام کی “فلاح و بہبود” کو فروغ دینے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے میں بڑی حد تک ناکام رہی ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق سارک چارٹر ڈے (8 دسمبر) کے موقع پر صدر آصف علی زرداری اور وزیرِاعظم شہباز شریف دونوں نے سارک سے پاکستان کے عزم اور علاقائی تجارت کے فروغ کے لیے “تمام رضامند ریاستوں” کے ساتھ کام کرنے کے عہد کا اعادہ کیا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان رقابت سارک کو ایک متحرک علاقائی ادارہ بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے اور اب بھی ہے۔ یہ سب اس کے باوجود ہے کہ سارک چارٹر میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ “دو طرفہ اور متنازع امور کو شامل نہیں کیا جائے گا”۔
ڈان نیوز مزید لکھتا ہے کہ ایک وقت تھا جب پاکستان میں موجود سخت گیر عناصر نے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کو ویٹو کیا۔ مگر گزشتہ کئی برسوں سے یہ بھارت ہے جو پاکستان کے ساتھ تعلقات میں جمود توڑنے کی ہر کوشش کو روکے ہوئے ہے۔ پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کے لیے بھارتی اثر و رسوخ کے نتیجے میں سارک مفلوج ہو چکی ہے۔ مثال کے طور پر آخری سارک سربراہ اجلاس 2014 میں کھٹمنڈو میں منعقد ہوا تھا۔ 2016 میں اسلام آباد میں ہونے والا اجلاس بھارت کی جانب سے چند دیگر رکن ممالک کے ساتھ مل کر بائیکاٹ کرائے جانے کے بعد ‘غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔
ڈان نیوز کے مطابق اسی تناظر میں وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا یہ کہنا درست ہے کہ جنوبی ایشیا میں کثیرالجہتی نظام “حملے کی زد میں” ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی کثیرالجہتی ادارہ اس وقت مؤثر طریقے سے کام نہیں کر سکتا جب ایک یا زیادہ رکن ممالک چھوٹی ریاستوں پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کریں یا دیگر اراکین کو الگ تھلگ کرنے کی پالیسی اپنائیں۔ اور چونکہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات تاریخی طور پر نچلی سطح پر ہیں، اس وقت سارک کی بحالی کا امکان نہایت کم دکھائی دیتا ہے۔
ڈان نیوز لکھتا ہے کہ تو کیا سارک کا مرثیہ لکھ دیا جائے؟ کیا جنوبی ایشیائی ممالک کو تجارت اور روابط کے فروغ اور دو طرفہ تعلقات کی بہتری کے لیے ایس سی او، برکس وغیرہ جیسے دیگر فورمز کی طرف دیکھنا چاہیے؟ بلاشبہ، دو طرفہ تعلقات کو آگے بڑھایا جانا چاہیے اور دیگر کثیرالجہتی شراکت داریوں کو بھی مزید تلاش کیا جانا چاہیے، لیکن جنوبی ایشیا میں ہم آہنگی اور امن کے خواب کو اس قدر عجلت میں دفن نہیں کیا جانا چاہیے۔ قریبی جغرافیائی خطے میں موجود ممالک اندرونِ علاقہ تجارت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے۔
ڈان نیوز کے مطابق اس وقت جنوبی ایشیا کی باہمی تجارت نہایت کم، تقریباً 5 فیصد کے آس پاس ہے۔ شاید سارک کو بحال کرنے کی ایک اور کوشش کی جا سکتی ہے تاکہ — ہر ریاست کی خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے — تجارت، امن اور عوامی روابط کے اصولوں پر مبنی ایک علاقائی برادری قائم کی جا سکے۔ لیکن اس کے لیے بھارت کو ایک بالادست طاقت کی طرح برتاؤ ترک کرنا ہوگا، اور خاص طور پر پاکستان کے خلاف اپنی دشمنی کو ختم کرنا ہوگا۔ بالآخر، سارک چارٹر کا مقصد یعنی “خطے کے عوام کے معیارِ زندگی میں بہتری” ایک ایسا ہدف ہے جس کے حصول کی کوشش آج بھی قابلِ قدر ہے۔




