
بی بی سی میں بڑا بحران، ٹرمپ تقریر کی ایڈیٹنگ پر ڈائریکٹر جنرل اور نیوز چیف مستعفی
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) غیر ملکی خبر رساں ادارے “رائٹر” کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کی ایڈیٹنگ پر تنازعے کے بعد بی بی سی کے اعلیٰ سطحی استعفوں نے اس برطانوی ادارے کے اندرونی تناؤ کو بے نقاب کر دیا ہے اور یہ سوال پھر سے ابھر آیا ہے کہ آیا یہ ادارہ اب بھی اپنی صحافتی غیرجانبداری اور عوامی اعتماد برقرار رکھ سکتا ہے یا نہیں۔
اتوار کو ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی اور سربراہِ خبریں ڈیبرہ ٹرنَس نے استعفیٰ دے دیا، جب ایک اندرونی رپورٹ جو سابق مشیر کی جانب سے تیار کی گئی تھی ڈیلی ٹیلی گراف کو لیک ہوئی۔ اس رپورٹ میں بی بی سی کی ٹرمپ، اسرائیل-حماس جنگ، اور ٹرانس جینڈر معاملات سے متعلق کوریج میں سنگین خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔
تاہم ان استعفوں نے بحران کو ختم کرنے کے بجائے اسے مزید گہرا کر دیا ہے۔ عوامی ملکیت رکھنے والا یہ ادارہ اب بغیر کسی قائد کے کھڑا ہے — ایسے وقت میں جب اس کے چارٹر اور فنڈنگ کے نظام کا سرکاری جائزہ شروع ہونے والا ہے۔
یہاں تک کہ بی بی سی کے حمایتی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ لائسنس فیس ماڈل — جو ہر ٹی وی رکھنے والے گھر سے وصول کی جاتی ہے — اب فرسودہ ہو چکا ہے، کیونکہ زیادہ تر ناظرین اب نیٹ فلکس، یوٹیوب اور سوشل میڈیا جیسے ذرائع سے خبریں اور تفریح حاصل کرتے ہیں۔
بی بی سی کا انحصار عوامی اعتماد پر ہے
کنزرویٹو پارٹی کے سابق وزیرِ اطلاعات جان وِٹنگڈیل نے رائٹرز کو بتایابی بی سی کا سب سے اہم اثاثہ عوام کا اعتماد ہے۔ اس کی شہرت اس بات پر قائم ہے کہ اس کی خبریں غیرجانبدار، درست ذرائع سے حاصل کردہ، اور اچھی طرح تصدیق شدہ ہوتی ہیں۔ اگر عوام اس اعتماد کو کھو دیں تو یہ بی بی سی کے لیے تباہ کن ہو گا۔
میڈیا تجزیہ کار کلیئر اینڈرز نے کہا کہ نئے سربراہ کا تقرر فوری طور پر کیا جانا چاہیے تاکہ ادارے کے اندر اعتماد بحال کیا جا سکے جو اس کے وجود کے لیے ناگزیر ہے۔
1922 میں قائم ہونے والا بی بی سی دنیا کے قدیم ترین میڈیا اداروں میں سے ایک ہے اور اس کی صحافت کو عالمی سطح پر احترام حاصل ہے۔ بی بی سی اس وقت 42 زبانوں میں نشریات کرتا ہے اور اس کی انگریزی ویب سائٹ دنیا کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔
لیک شدہ میمو میں ادارہ جاتی تعصب کا انکشاف
گزشتہ ہفتے دی ٹیلی گراف نے مائیکل پریسکاٹ نامی سابق مشیر کی میمو شائع کی، جس میں بی بی سی کے عملے میں بائیں بازو کے تعصب کے شواہد بیان کیے گئے تھے۔
سب سے سنگین الزام یہ تھا کہ نومبر 2024 کے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل نشر ہونے والی ایک پانوراما ڈاکیومنٹری میں ٹرمپ کی تقریر کے دو حصے غلط طور پر جوڑ دیے گئے تھے، جس سے ایسا تاثر پیدا ہوا جیسے وہ 6 جنوری 2021 کے کیپیٹل ہل حملے کی ترغیب دے رہے ہوں۔
ٹرمپ نے بی بی سی کے خلاف ایک ارب ڈالر سے کم نہ ہونے والے ہرجانے کا مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی دی ہے، اگر ادارہ 14 نومبر تک اپنی ڈاکیومنٹری واپس نہیں لیتا۔
بی بی سی نے تسلیم کیا کہ یہ “فیصلے میں غلطی” تھی اور کہا کہ وہ قانونی ردِعمل پر غور کر رہا ہے۔
میمو کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ادارہ کئی دن تک خاموش رہا، صرف اتنا کہتا رہا کہ وہ “لیک شدہ دستاویزات پر تبصرہ نہیں کرتا”۔
بی بی سی کے صحافی کیٹی رازل اور سیاسی میزبان نک رابنسن کے مطابق، ادارے میں اس بات پر اختلاف تھا کہ کیا فوری معافی شائع کی جائے یا نہیں — خبر کے مطابق، انتظامیہ معافی دینا چاہتی تھی لیکن بورڈ نے روکا۔
بی بی سی بورڈ کے رکن رابی گب جو سابق وزیراعظم تھیریسا مے کے ترجمان رہ چکے ہیں — پر بھی انگلیاں اٹھائی گئیں۔
چیئرمین سمیر شاہ نے وضاحت دی کہ بورڈ نے معافی کو نہیں روکا بلکہ ردعمل کے لیے وقت چاہا۔ انہوں نے اس بات کو “غیر حقیقی” قرار دیا کہ کوئی “اندرونی بغاوت” ہوئی ہے۔
شاہ نے ٹرمپ ایڈیٹنگ پر معذرت کی، لیکن کہا کہ بی بی سی کی “خبر نگاری کا ڈی این اے غیرجانبداری” ہے، اور عوامی سروے اب بھی بی بی سی پر سب سے زیادہ اعتماد ظاہر کرتے ہیں۔
بی بی سی کے حمایتیوں کا مؤقف: “ادارے کے خلاف مہم چلائی گئی”
گارڈین، فنانشل ٹائمز اور خود بی بی سی کے کئی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ بحران دائیں بازو کے منظم حملے کا نتیجہ ہے۔
ماہرِ معیشت ڈایان کوائل کے مطابق:
“یہ بحران ان لوگوں نے پیدا کیا جو عوامی خدمت کے نشریاتی ادارے اور بی بی سی کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔”
ان کے مطابق، لیک شدہ میمو سے روزانہ کی بنیاد پر منفی خبریں جاری کی گئیں، اور سابق وزیراعظم بورس جانسن جیسے سیاست دانوں نے اس تنازع کو مزید ہوا دی۔
سابق گارڈین ایڈیٹر ایلن رسبرجر نے کہا کہ موجودہ بی بی سی بورڈ میں زیادہ تر لوگ مالیاتی یا کاروباری پس منظر رکھتے ہیں اور صحافت سے ان کا تعلق کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ادارے کو نہ صرف نئے ڈائریکٹر جنرل کی ضرورت ہے بلکہ مزید مضبوط گورننس کی بھی۔
“کوئی نیا ڈائریکٹر جنرل یہ جانے بغیر کام نہیں کر سکتا کہ اس کے پیچھے کون ہے — اور کیا وہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو صحافت کے دفاع میں کھڑے ہو سکیں یا وقت پر درست فیصلے کر سکیں۔”
لائسنس فیس ماڈل پر سوالات
یہ بحران ایسے وقت میں آیا ہے جب حکومت یہ جائزہ لینے والی ہے کہ کیا بی بی سی کا لائسنس فیس ماڈل پائیدار ہے یا کوئی نیا متبادل نظام اختیار کیا جانا چاہیے۔
موجودہ دس سالہ چارٹر 2027 میں ختم ہو رہا ہے۔
لیبر وزیراعظم کئیر اسٹارمر کے ترجمان نے کہا کہ حکومت بی بی سی کی حمایت کرتی ہے اور اسے “ادارہ جاتی تعصب” کا حامل نہیں سمجھتی۔
بی بی سی طویل عرصے سے اخبارات، سوشل میڈیا اور ناقدین کے نشانے پر رہا ہے — جو اس کے فنڈنگ ماڈل اور لبرل مؤقف پر اعتراض کرتے ہیں۔
2024/25 میں بی بی سی کی آمدنی 9 فیصد بڑھ کر 5.9 ارب پاؤنڈ (تقریباً 7.9 ارب ڈالر) ہو گئی، لیکن 300,000 صارفین نے گزشتہ سال اپنی لائسنس فیس منسوخ کر دی، جس سے ادارے کو 50 ملین پاؤنڈ کا نقصان ہوا۔




