
دنیا بھر میں ’جن زی‘ مظاہرے،مڈغاسکر سے نیپال تک،نوجوان نسل کا غصہ بڑھ گیا
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) عالمی خبر رساں ادارے “اے پی “ نیوز کے ایک آرٹیکل کے مطابق انڈیز سے ہمالیہ تک، دنیا کے مختلف ممالک میں مظاہروں کی ایک نئی لہر جاری ہے جو حکومتوں کے خلاف نسلوں کی ناراضگی اور نوجوانوں کے غصے سے پیدا ہوئی ہے۔
اس ہفتے مدغاسکر کے صدر اینڈری راجوئلینا کو فوجی بغاوت کے بعد اقتدار سے ہٹایا گیا اور ملک چھوڑنا پڑا، یہ کئی ہفتوں تک جاری مظاہروں کا نتیجہ تھا جس کی قیادت نوجوان مظاہرین نے کی، جو خود کو “جنریشن زی مدغاسکر” کے نام سے پکار رہے تھے۔
انڈین اوشن کے اس جزیرے میں سیاسی قیادت کے خلاف غصہ دنیا کے دیگر مظاہروں کی عکاسی کرتا ہے،جیسے نیپال، فلپائن، انڈونیشیا، کینیا، پیرو اور مراکش میں۔ یہ مظاہرے مخصوص مسائل کی وجہ سے شروع ہوئے، لیکن ان کے پیچھے دیرینہ مسائل ہیں جیسے بڑھتی ہوئی معاشرتی ناہمواری، معاشی غیر یقینی صورتحال، بدعنوانی اور قیادت میں سرپرستی یا فیملی نواز پالیسیاں۔
لیکن ان میں ایک چیز مشترک ہے، یہ زیادہ تر بے قیادت ہیں اور بنیادی طور پر نوجوانوں پر مشتمل ہیں، جو خود کو “جنریشن زی” کہتے ہیں وہ نسل جو تقریباً 1996 سے 2010 کے درمیان پیدا ہوئی اور پوری زندگی انٹرنیٹ کے دور میں گزری۔
سیم نادل، ڈائریکٹر، سوشل چینج لیب (برطانیہ میں ایک غیر منافع بخش تنظیم جو مظاہروں اور سماجی تحریکات پر تحقیق کرتی ہے) کے مطابق جو چیز ان نوجوان قیادت والے مظاہروں کو جوڑتی ہے وہ یہ مشترکہ احساس ہے کہ روایتی سیاسی نظام ان کی نسل کے مسائل جیسے بدعنوانی، ماحولیاتی تبدیلی، یا معاشی ناہمواری کے لیے جوابدہ نہیں ہیں۔ جب ادارہ جاتی راستے بند محسوس ہوں تو مظاہرہ منطقی اقدام بن جاتا ہے۔
مظاہرین ایک دوسرے سے رہنمائی لیتے ہیں
اگرچہ ان کی مخصوص مانگیں مختلف ہیں،زیادہ تر مظاہرے حکومت کی زیادتی یا لاپروائی کی وجہ سے شروع ہوئے۔ کچھ مظاہرین نے سیکیورٹی فورسز کے سخت سلوک اور جارحانہ دباؤ کا بھی سامنا کیا۔
مراکش میں،ایک بے قیادت گروہ جسے “جن زی 212” کہا جاتا ہے۔مراکش کے ڈائلنگ کوڈ 212 کے نام پر سڑکوں پر نکل آیا تاکہ بہتر عوامی خدمات اور صحت و تعلیم پر زیادہ خرچ کرنے کا مطالبہ کرے۔ پیرو میں پنشن قانون کے خلاف مظاہرے وسیع مطالبات میں تبدیل ہوگئے، جن میں بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال اور حکومت میں بدعنوانی کے خاتمے کی اپیل شامل تھی۔ انڈونیشیا میں، عوامی احتجاج نے مہنگائی اور قانون سازوں کے مراعات کے خلاف مہلک مظاہروں کی شکل اختیار کرلی، جس کی وجہ سے صدر کو اہم اقتصادی اور سیکیورٹی وزراء کو تبدیل کرنا پڑا۔
سب سے زیادہ معروف “جن زی” تحریک نیپال میں ہوئی، جو مہلک مظاہروں کے بعد ستمبر میں وزیر اعظم کی استعفیٰ پر منتج ہوئی۔ مظاہرین نے جنوبی ایشیا میں دیگر کامیاب حکومت مخالف تحریکات سے تحریک حاصل کی۔ 2022 میں سری لنکا اور 2024 میں بنگلہ دیش جس سے موجودہ حکومتیں ہٹائی گئیں۔
مدغاسکر کے مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ خاص طور پر نیپال اور سری لنکا کی تحریکوں سے متاثر ہوئے۔ مظاہرے ابتدائی طور پر پانی اور بجلی کی معمولی بندشوں کے خلاف شروع ہوئے، لیکن جلد ہی وسیع ناراضگی کی شکل اختیار کرگئے، کیونکہ مظاہرین نے صدر اور دیگر وزراء کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ بدھ کو، مدغاسکر کے فوجی بغاوت کے رہنما نے کہا کہ وہ صدر کا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔
ایک مانگا پائریٹ جھنڈے کے پیچھے اتحاد
متعدد ممالک میں ایک منفرد پاپ کلچر علامت سامنے آئی: ایک سیاہ جھنڈا جس پر ایک مسکراتا ہوا کھوپڑی اور ہڈیوں کا نشان ہے، جس نے اسٹرا ہیٹ پہنا ہوا ہے۔ یہ جھنڈا جاپانی مانگا اور اینیمے سیریز “ون پیس” سے آیا ہے، جو قزاقوں کے ایک عملے کی کہانی ہے جو کرپٹ حکومتوں کے خلاف لڑتے ہیں۔
نیپال میں،مظاہرین نے یہی جھنڈا سنگھا دوربار، نیپالی حکومت کے صدر دفتر اور دیگر وزارتوں کے دروازوں پر لہرایا،جن میں سے کئی پر مظاہروں کے دوران آگ لگا دی گئی۔ یہ جھنڈا انڈونیشیا، فلپائن، مراکش اور مدغاسکر میں بھی بلند کیا گیا۔
پچھلے ہفتے پیرو کے دارالحکومت لیما میں 27 سالہ الیکٹریشن ڈیوڈ تافر نے سان مارٹن اسکوائر میں اسی جھنڈے کے ساتھ مظاہرہ کیا، جو اب ہفتہ وار احتجاج کا مقام بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ہم ایک ہی لڑائی لڑ رہے ہیں۔کرپٹ حکام کے خلاف جو ہمارے معاملے میں قاتل بھی ہیں۔تافر نے مزید کہا کہ ان کے ملک میں صدر دینا بولوارٹے کی حکومت دسمبر 2022 سے اقتدار میں ہے، باوجود اس کے کہ 500 سے زیادہ مظاہرے ہو چکے ہیں اور 50 شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو متحرک کرنا اور آگاہی بڑھانا
گزشتہ اہم مظاہروں جیسے 2011 میں اوکیوپائی وال اسٹریٹ، 2010–2012 عرب بہار، اور 2014 ہانگ کانگ کی چھتری تحریک میں نوجوان قیادت کرتے تھے۔ اگرچہ انہوں نے بھی بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال کیا، لیکن “جن زی” مظاہرین نے اسے ایک نئی سطح تک پہنچا دیا ہے۔
سیم نادل کے مطابق ڈیجیٹل پلیٹ فارمز معلومات کا تبادلہ اور رابطہ قائم کرنے کے لیے طاقتور اوزار ہیں، لیکن سب سے مؤثر تحریکات وہ ہیں جو ڈیجیٹل متحرک کاری کو روایتی ذاتی تنظیم کاری کے ساتھ ملاتی ہیں، جیسا کہ ہم نے حالیہ مظاہروں میں دیکھا۔
نیپال میں مہلک مظاہروں سے چند دن پہلے حکومت نے زیادہ تر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگا دی، کیونکہ وہ رجسٹریشن کی شرط پوری نہیں کر رہے تھے۔ کئی نوجوان نیپالیوں نے اسے خاموش کرانے کی کوشش سمجھا اور ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس کے ذریعے سوشل میڈیا تک رسائی حاصل کی۔ تافر نے کہا صدر کانگریس کا اتحادی ہے اور اسے جانا چاہیے۔
مظاہرین نے ٹک ٹاک ، انسٹا گرام اور ایکس پر سیاستدانوں کے بچوں کی عیش و آرام کی زندگی کو اجاگر کیا، امیر و غریب کے درمیان فرق کو دکھایا اور مظاہروں کے لیے مقامات اور منصوبہ بندی کا اعلان کیا۔ بعد میں، کچھ نے پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے عبوری قیادت کے لیے امیدوار تجویز کیے۔
مظاہرین یوجان راجبھنداری نے کہا چاہے تحریک بدعنوانی کے خلاف ہو یا ناانصافی کے خلاف، یہ ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے پھیلتی ہے۔ نیپال میں بھی یہی ہوا۔ جن زی مظاہروں کے بعد ہونے والے تبدیلیاں عالمی طور پر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے پھیلی اور دیگر ممالک پر اثر انداز ہوئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیپال کے مظاہروں نے صرف نوجوانوں کو ہی نہیں بلکہ دیگر نسلوں کو بھی بیدار کیا۔ہم نے محسوس کیا کہ ہم عالمی شہری ہیں اور ڈیجیٹل اسپیس ہمیں سب کو جوڑتا ہے اور دنیا بھر میں طاقتور کردار ادا کرتا ہے۔